بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیلاب وغیرہ کے وقت ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر دعا کرنا


سوال

ہمارے علاقے میں رواج ہےکہ جب کہیں سیلاب یاطوفان آجائے،لوگ قرآن کریم کو ہاتھوں پراٹھاکرکہتے ہیں کہ یااللہ اس قرآن کریم کی برکت سے ہمارے گاؤں یاگھرسےاس سیلاب کودفع کریں، کیااس طرح کرنا جائزہے؟یاسلف وخلف میں اس طرح کوئی کام ہواہے؟یاحدیث وفقہ کی کتابوں میں ایساجزئیہ ہےجس سےاس کام جواز یا عدم جواز معلوم ہوجائے؟

جواب

صورت مسئولہ میں قرآن کریم کو ہاتھ میں اٹھا کر اس کے وسیلے سے دعا کرنے کی مذکورہ صورت اختیار کرنے  کی شرعاً گنجائش ہے، البتہ بہتر یہ ہے اس کے بجائے (مصیبت کے وقت بھی)قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت اور استغفار کا اہتمام کر کے دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، ان شاء اللہ اس  کی برکت سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، نیز دعا  میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

"1010 - حدثنا الحسن بن محمد، قال: حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري، قال: حدثني أبي عبد الله بن المثنى، عن ثمامة بن عبد الله بن أنس، عن أنس بن مالك، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: «اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا»، قال: فيسقون".

(صحیح البخاري، کتاب العیدین، أبواب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، 1/137،ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے، چناں چہ یوں کہتے تھے: اے اللہ ہم آپ سے اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعاکرکے بارش طلب کرتے تھے، اب آپ ﷺ کے چچا کے وسیلے سے آپ سے بارش کی دعا کرتے ہیں، چناں چہ بارش ہوجاتی۔

وتحته في عمدة القاري:

"وفيه من الفوائد: استحباب الاستشفاع بأهل الخير والصلاح وأهل بيت النبوة".

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري،7/ 33، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

وفي فيض الباري:

"قوله: (اللهم أنا كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم ليس فيه التوصل المعهود الذي يكون بالغائب حتى قد لايكون به شعور أصلا، بل فيه توسل السلف، وهو أن يقدم رجلا وذا وجاهة عند الله تعالى ويأمره أن يدعو لهم، ثم يحيل عليه في دعائه، كما فعل بالعباس رضي الله عنه عم النبي صلى الله عليه وسلم ولو كان فيه توسل المتأخرين لما احتاجوا إلى إذهاب العباس رضي الله عنه معهم، ولكفى لهم التوسل بنبيهم بعد وفاته أيضا، أو بالعباس رضي الله عنه مع عدم شهوده معهم.

وهذا النحو جائز عند المتأخرين ومنع منه الحافظ ابن تيمية رحمه الله تعالى وإني متردد فيه، لأنه أتى بعبارة عن الإمام من «تجريد القدوري» أن الإقسام على الله بغير أسمائه لا يجوز، فتمسك بنفي الإقسام على نفي التوسل. فإن كان التوسل إقساما فالمسألة فيه كما ذهب إليها ابن تيمية رحمه الله تعالى، وإن لم يكن إقساما يبقى جائزا."

(فيض الباري على صحيح البخاري، 2/ 496، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں