بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیلاب میں منہدم ہونے والے گھر کی جگہ دوسرا گھر حکومت الاٹ کرے تو کون مالک ہوگا؟


سوال

میں  ضلع مظفرگڑھ پنجاب سے ہوں، میرا مکان سیلاب میں مکمل گر تباہ ہوگیا تھا،اس کے بعدحکومت  کی طرف سے سروے کرایاگیا تھا تو اس وقت میں وہاں  موجود نہیں تھا، تو میرا چھوٹا بھائی جو اس وقت شادی شدہ نہیں تھا ،اس نے میرے گھر کے ملبے پہ کھڑے ہو کر سروے کروایا ، جب میں گھر آیا ،تو اس کو کہا کہ آپ نے میرے گھر پہ اپنا سروے  کیوں کروایا؟تو  بھائی  نے کہا کہ: جو کچھ بھی حکومت کی طرف ملے گا،وہ میں آپ کو دے دوں گا۔

اب دو سال بعد حکومت  کی طرف مکان الاٹ ہوئے ہیں، تو اس میں   میرے بھائی  کا بھی نام ہے، جب  بھائی کو میں  نے کہاکہ :  مجھے مکان دے دو! کیوں  کہ مکان تو میرا گرا تھا، اس لیے اس گھر  پرتو میرا حق ہے، تو اس نے نہیں دیا، اب کیا اس مکان پر میرا حق ہے یا میرے بھائی کا؟نیز جو مکان سیلاب میں گر کر تباہ ہوا تھا اس گھر کو  از سر نو بنا لیا ہے، اور حکومت نے دوسری جگہ مکان بناکر دیے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں حکومت کی طرف سے ملنے والا گھر جس شخص کے گھر کے بدلے میں الاٹ ہوا ہے، وہی اس گھر کا مالک ہوگا، اس لیے   سائل مذکورہ الاٹ شدہ گھر کا مالک ہے، سائل کا بھائی مذکورہ گھر کا مالک نہیں ہے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"واختلفت الصحابة ومن بعدهم في جواز قبول الهدية من أمراء الجور، فكان ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم يقبلان هدية المختار، وعن إبراهيم النخعي: أنه كان يجوز ذلك، وأبو ذر وأبو درداء كانا لا يجوزان ذلك، وعن علي رضي الله عنه: ‌أن ‌السلطان ‌يصيب ‌من ‌الحلال ‌والحرام، فإذا أعطاك شيئاً فخذه، فإن ما يعطيك حلال لك، وحاصل المذهب فيه أنه إن كان أكثر ماله من الرشوة والحرام لم يحل قبول الجائزة منه ما لم يعلم أن ذلك له من وجه حلال، وإن كان صاحب تجارة وزرع وأكثر ماله من ذلك، فلا بأس بقبول الجائزة ما لم يعلم أن ذلك له من وجه حرام، وفي قبول رسول الله عليه السلام الهدية من بعض المشركين دليل على ما قلنا."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية،‌‌الفصل السابع عشر في الهدايا والضيافات،367/5، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"واما رکنها فقول الواهب وهبت لانه تمليك... ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضا، حتي لايثبت الملك الموهوب له قبل القبض."

(کتاب الهبة،الباب الاول فی تفسیر الھبة ورکنھا:374/4 ط:رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"جعلته ‌باسمك ‌فإنه ‌ليس ‌بهبة."

(‌‌كتاب الهبة،689/5، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں