بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صلہ رحمی کے لئے ہر وقت کال پر بات کرنا ضروری ہے؟


سوال

 ہمارا ددھیال والوں سے تعلق مختصر رہا ہے ، ان کی طرف سے بےتکلفی نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سے کال پر بات نہیں کرتے ہیں البتہ جب ممکن ہو توعیادت و ملاقات کر لیتے ہیں،  کال پر بات نہ کرنا کیسی رنجش کی وجہ نہیں بلکہ بےتکلفی نہ ہونے کی وجہ سے ہے،  حال ہی میں ہم نے صلہ رحمی کی تفصیلات پڑھی تو ہمیں خیال ہوا کہ ہمیں ان سے کال پر بات کرنی چاہیے مگر اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ والدہ کو ان کی طرف سے کوئی تکلیف پہونچی ہے،  جس سےوہ بہت متاثر ہوئی ہیں،  ایسے میں اگر ہم ان سے کال پر بات کریں گے تو والدہ کی ذہنی حالت پر اثر پڑے گا ،  کیا اگر ہم والد سے ان کی حال خبر لے لیں اور ددھیال والوں کے لیے خیر و بھلائی کی دعائیں کرتے رہیں تو ہم قطع رحمی کے گناہ سے محفوظ رہیں گے ؟رہمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں متعلقین اور رشتہ داروں کے غم اور خوشی کی مناسبت سے ان کی خبرگیری کرنے سے بھی صلہ رحمی کا حق ادا ہوجاتا ہے، صلہ رحمی کے لئے ہر وقت کال پر بات کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا جب سائل مذکورہ رشتہ داروں کے بارے میں خبرگیری کرتا ہے، اور ان کے غم اور خوشی میں شریک ہوتا ہےتووہ رشتہ داری کا حق اداکرنے کی وجہ سے عنداللہ ماخوذ نہیں ہے۔تاہم والد اور دادا دادی عظیم محسنین میں سے ہیں، ان کی عزت اور احترام اور رضا کا ہمیشہ لحاظ رکھنا اور ان کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے۔

جامع البيان(تفسیرطبری) میں ہے:

"القول في تأويل قوله تعالى: {فآت ذا القربى حقه والمسكين وابن السبيل} [الروم: 38] يقول تعالى ذكره لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم فأعط يا محمد ذا القرابة منك حقه عليك من الصلة والبر، والمسكين وابن السبيل، ما فرض الله لهما في ذلك."

(سورۃ الروم، رقم الآیۃ:38، ج:18، ص:502، ط:دارهجر للطباعة والنشر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح میں ہے:

"(وعن جبير بن مطعم) : مر ذكره (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يدخل الجنة قاطع» ) أي: للرحم أو للطريق."

(باب البر والصلة، ج:9، ص:142، ط:مكتبه حنيفيه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144507100157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں