بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیکیورٹی ملحوظات کی بناء پر حکومتی اداروں میں بنی ہوئی مساجد میں عام لوگوں کو نماز جمعہ میں شرکت کرنے سے منع کرنے کا حکم


سوال

(1)ہمارے ہاں حکومتی اداروں میں مساجد بنی ہوئی ہے، جن میں نماز کے لئے صرف اسی ادارے کے کارکن آتے ہیں، کیا ایسی جگہ میں جمعہ کی نماز ادا کی جاسکتی ہے؟جب کہ سیکیورٹی ملحوظات کی بناء پر لوگوں کو وہاں آنے کی عمومی اجازت نہیں ہوتی۔

(2) کچھ حکومتی اعلیٰ عہدے دار سیکیورٹی ملحوظات کی بناء پر عام جامع مسجد میں جمعہ میں شرکت نہیں کرسکتے، کیا وہ ایسی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے لیے مسجد شرط نہیں، مسجد کے علاوہ بھی کسی گھر یا میدان میں جمعہ ادا کرنا جائز ہے، اسی طرح  نہ ہی کوئی ایسی جگہ ہونا شرط ہے جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہو،   لیکن صحتِ جمعہ کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ جگہ شہر یا قصبہ ہو اور گاؤں ہو تو اتنا بڑا ہوکہ بڑی آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ روز مرہ کی تمام ضروریاتِ زندگی وہاں مہیا ہوں، نیز جس جگہ جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی ہو وہاں اور لوگوں کی بھی شرکت کی اجازت ہو، البتہ اگر حفاظتی پہلو سے کسی جگہ (مثلاً حکومتی ادارہ وغیرہ میں) باہر کے لوگوں کو نہ آنے دیا جائے تو وہ صحتِ جمعہ سے مانع نہیں ہے۔

(2،1)لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ حکومتی ادارہ  شہر  یا بستی یا بڑے گاؤں میں ہے، تو وہاں جمعہ ادا کرنا جائز ہے، چاہے وہاں مسجدِ شرعی ہو یا نہ ہو ، خواہ وہاں پانچوں نمازیں نہ ہوتی ہوں،  باہر کے لوگوں کا داخلہ حفاظتی پہلو سے ممنوع ہو تو بھی جمعہ قائم کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) السابع: (الإذن العام) من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين كافي فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مقرر لأهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:152،151، ط:سعيد)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال:آنجناب کو معلوم ہوگا کہ اب جمعہ کے دن ہر ایک سرکاری دفتر میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت مل گئی ہے مگر کمترین بدقسمتی سے قلعہ میں ملازم ہے، عرض یہ ہے کہ سنا ہوا ہے کہ قلعہ میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی مگر اب جبکہ سرکار اجازت دیتی ہے اور خوشی سے اجازت دیتی ہے تو قلعہ میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ایک اور شرط جو کہ جمعہ کے متعلق ہے وہ شاید شارع عام کا ہونا ضروری ہے سو اس کے متعلق عرض یہ ہے قلعہ چھاونی فیروز پور ایک بڑے گاؤں کے مانند ہے اور اس کی مختلف شاخیں جو کہ اسی کے احاطہ کے اندر ہیں بمنزلہ مکانات کے ہیں اور ہر ایک آدمی کو خواہ مزدور ہو یا کلرک ہو ایک بجے کی چھٹی میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو کیا اس حالت میں بھی شارع عام کی ضرورت ہے یہ قید جو کہ سرکار نے لگائی ہے وہ صرف نقصان سے بچاؤ کی غرض سے ہے ، اور ایسا ہم بھی عموماً اپنے بڑے کارخانہ میں کر لیا کرتے ہیں۔ فقط؟

الجواب: اذن عام ہونا بھی منجملہ شرائط صحت جمعہ ہے جس  کے معنی ہے کہ خود نماز پڑھنے والے کو روکنا وہاں مقصود نہ ہو، باقی اگر روک ٹوک کسی اور ضرورت سے ہو وہ اذن عام میں مخل نہیں۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلوٰۃ الجمعۃ والعیدین، حکم اقامتِ جمعہ دفتر سرکاری و قلعہ، ج:1، ص:481،480، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فتاوی محمودیہ میں  ہے:

"سوال:ہم پاکستانی جنگی قیدی ہے، ہم نماز با جماعت ادا کرتے ہیں، عیدین اور جمعہ اسیری کی وجہ سے معاف ہے، اگر رمضان تک رہنا ہو تو روزہ اور تراویح اور اعتکاف کی کیا پوزیشن ہے؟ نمازیں باجماعت مع اذان ایک کمرہ میں پڑھتےہیں۔

جواب: آپ صاحبان کو جب وہاں اذان و جماعت کی سہولت ہے، کوئی رکاوٹ نہیں اور دوسرے کا وہاں داخل ہونا نماز جمعہ سے منع کرنے کے لیے نہیں بلکہ قانونی تحفظ کے لیے منع ہے، ایسی حالت میں بعض کتبِ فقہ کی عبارات کے تحت وہاں جمعہ اور عیدین ادا کرنے کی گنجائش ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلوٰۃ الجمعۃ، قیدیوں کے لیے جمعہ و عیدین و اعتکاف کا حکم، ج:8، ص:39،38، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100890

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں