بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سکوں کی منافع کے ساتھ خرید وفروخت کا حکم


سوال

دو آدمی سعودیہ میں مل کر کاروبار کرتے تھے اس کاروبار میں ایک کام وہ یہ بھی کرتے تھے کہ اگر کسی آدمی کو سکے لینے ہوتے تو یہ لوگ ان کو زیادہ پیسوں کے بدلے میں سکے دیتے تھے مثلا اگر کسی کوچودہ روپے سکوں کی شکل میں چاہئے ہوتے یہ ان کو پندرہ روپے کے عوض میں چودہ سکے دیدیتے،آیا ان کا یہ عمل سود شمار ہوگا یا نہیں ؟اگر سود ہے تو جن لوگوں سے انہوں نے اضافی پیسے لئے تھے اس کا کفارہ کیسے ادا ہوگا؟ مہربانی باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر نوٹ اور سکے ایک ہی ملک کی کرنسی ہو مثلا  ایک جانب سے نوٹ ہوں اور دوسری جانب سے سے سکے ہوں تو ایسی صور ت میں  ان کاآپس میں تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ  ناجائز  اور سود ہے، اس صورت  میں حکم یہ ہے کہ جس کے ساتھ مذکورہ سودی معاملہ کیا گیا ہے تو اضافی سودی رقم اس کے مالک کو لوٹا ضروری ہے۔اگر معاملہ کچھ اور ہو تو وضاحت کر کے دوبارہ معلوم کر لیا جائے۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"شرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط)...(والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا(شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس صح...

(قوله: فلو باع النقدين) تفريع على قوله وإلا شرط التقابض فإنه يفهم منه أنه لا يشترط التماثل، وقيد بالنقدين؛ لأنه لو باع فضة بفلوس فإنه يشترط قبض أحد البدلين قبل الافتراق لا قبضهما كما في البحر عن الذخيرة. ونقل في النهر عن فتاوى قارئ الهداية أنه لا يصح تأجيل أحدهما ثم أجاب عنه، وقدمنا ذلك في باب الربا، وقدمنا هناك أنه أحد قولين فراجعه عند قول المصنف باع فلوسا بمثلها أو بدراهم إلخ. (قوله: أحدهما بالآخر) احتراز عما لو باع الجنس بالجنس جزافا حيث لم يصح ما لم يعلم التساوي قبل الافتراق كما قدمناه.

(قوله: جزافا) أي بدون معرفة قدر، وقوله أو بفضل: أي بتحقق زيادة أحدهما على الآخر وسكت عن التساوي للعلم بصحته بالأولى".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:، ص:، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں