بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری میں اٹھ نہیں سکا تو دن میں روزے کی نیت کا حکم


سوال

اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے اور دن چڑھ جائے تو کیا پھر بھی روزہ کی نیت کر سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر سحری کے وقت  کسی شخص کی  آنکھ نہیں کھلی یہاں تک کہ صبح روشن  ہو گئی تو پھر بھی وہ روزے کی نیت کر سکتا ہے؛ کیوں کہ روزے کے صحیح ہونے کے لیے سحری میں اٹھنا شرط نہیں ہے،بلکہ سحری میں اٹھناسنت ہے اور یہ باعثِ برکت ہے، البتہ سحری میں اٹھ نہیں سکا اور رات کو بھی روزے کی نیت نہ کی ہو تو پھر نصف النہار سے پہلے پہلے تک نیت کرلینے کی اجازت ہے، اور یہ اجازت نفل روزہ، نذرِ معین کا روزہ اور رمضان کے روزے کے ساتھ خاص ہے،اس کے علاوہ کے روزے میں  یعنی  قضا، کفارہ اور نذر مطلق وغیرہ کے روزوں میں صبح صادق سے پہلے  روزے کی نیت کرنا ضروری ہے۔

یاد  رہےکہ روزے کی نیت کے مسائل میں نصف النہار سے مراد صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان جتنا وقت بنتا ہے  اس کا آدھا وقت ہے جسے نصف النہار شرعی کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر کسی جگہ صبح صادق اور غروبِ آفتاب کے درمیان کل  دورانیہ گیارہ گھنٹے بنتے ہوں تو وہاں کا نصف النہار  ساڑھے پانچ گھنٹے ہوں   گے، لہٰذا اس جگہ  جہاں روزہ کا کل دورانیہ گیارہ  گھنٹے ہوں تو وہاں  کوئی شخص سحری میں نہ اٹھ  سکا ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ شروع کہ ساڑھے پانچ گھنٹوں میں  وہ روزہ کی نیت کرلے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التسحر مستحب، ووقته آخر الليل قال الفقيه أبو الليث، وهو السدس الأخير هكذا في السراج الوهاج ثم ‌تأخير ‌السحور مستحب كذا في النهاية ويكره ‌تأخير ‌السحور إلى وقت يقع فيه الشك هكذا في السراج الوهاج".

(كتاب الصوم وفيه سبعة أبواب، الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره، 200/1، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعين والنفل بنية من الليل) فلا تصح قبل الغروب ولا عنده (إلى الضحوة الكبرى لا) بعدها ولا (عندها) اعتبارا لأكثر اليوم........قوله: إلى الضحوة الكبرى) المراد بها نصف النهار الشرعي والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس.....ونصفه من وقت طلوع الفجر إلى وقت الضحوة الكبرى".

(كتاب الصوم، 377/2، ط: سعيد)

ایضاً:

"النهار الشرعي ‌وهو ‌من أول طلوع الصبح إلى غروب الشمس، وعلى هذا يكون نصف النهار قبل الزوال بزمان يعتد به".

(كتاب الصلاة، 371/1، ط: سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"(والضرب الثاني ما يثبت في الذمة كقضاء رمضان والنذر المطلق وصوم الكفارة فلا يجوز إلا بنية من الليل) لأنه غير متعين فلا بد من التعيين من الابتداء....(قوله فلا يجوز إلا بنية من الليل) ليس بلازم، بل إن نوى مع طلوع الفجر جاز لأن الواجب قران النية بالصوم لا تقديمها، كذا في فتاوى قاضي خان".

(كتاب الصوم، 315/2-316، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں