بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری کے بغیر روزہ رکھنے کا حکم اور اس کی نیت کا طریقہ


سوال

 ہم بغیر سحری کے روزہ تو رکھ سکتے ہیں،  پنجابی میں ہمارے ہاں ( 8 پہر کا روزہ کہتے ہیں)۔ کیا اس روزے کی نیت الگ ہوتی ہے یا بالکل وہی کرنا ہوتی ہے جو ہم رمضان  کے عام روزوں کے  لیے کرتے ہیں؟

جواب

احادیث میں سحری کھانے کی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے سحری کرنی چاہیے، اور یہ سنت ہے، البتہ  فرض یا واجب نہیں ہے، لہذا اگر رات کو سحری کھانے کے لیے آنکھ نہیں کھلی یا آنکھ کھلی، لیکن کھانے کے لیے کچھ دست یاب نہ ہوا تو سحری کے بغیر ہی روزہ  کی نیت کرکے روزہ  رکھنا ضروری ہے،  چنانچہ  اگر رمضان میں کسی کی آنکھ نہ کھلے اور رات سے ہی روزے کی نیت ہو، یا صبح اٹھ کر کچھ کھائے پیے بغیر نصف النہار شرعی (یعنی صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب کے وقت کے نصف) سے پہلے پہلے روزے کی نیت کرلی تو روزہ درست ہوجائے گا۔سحری کر کے رکھے جانے والے روزے اور سحری کے بغیر رکھے جانے والے روزے میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں کی نیت کا طریقہ بھی ایک جیسا ہی ہے، سحری کے بغیر رکھے جانے والے روزے کو آٹھ پہر کا روزہ کہنا بھی درست نہیں ہے، کیوں کہ سحری کے بغیر رکھا جانے والا روزہ بھی سحری والے روزے کی طرح صبح صادق سے ہی شروع ہوتا ہے۔سحری نہ کرنے کی وجہ سے اسے بڑا روزہ سمجھنا درست نہیں ہے۔نیز سستی کی وجہ سے یا بلاوجہ رات میں ہی کھانا کھاکر روزے کی نیت کرکے سوجانا اور سحری نہ کرنا پسندیدہ نہیں ہے، لہٰذا اس کا معمول نہیں بنانا چاہیے۔

باقی نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے نیت کے الفاظ کی ادائیگی ضروری نہیں ہے،اور نہ ہی روزے کی  نیت کے کوئی مخصوص الفاظ احادیث میں منقول ہیں، البتہ بعض مخصوص الفاظ مشائخ سے لوگوں کی سہولت کے واسطے منقول ہیں، لیکن خاص ان ہی الفاظ کے ساتھ روزے کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ دل میں روزہ رکھنے کا ارادہ کرلینا بھی کافی ہے۔

تحفة الفقهاء (1 / 365):

"إنما التسحر سنة في حق الصائم على ما روي عن عمرو بن العاص عن النبي عليه السلام أنه قال: إن فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب أكلة السحر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 380):

"والشرط فيها: أن يعلم بقلبه أي صوم يصومه. قال الحدادي: والسنة أن يتلفظ بها.

 (قوله: والشرط فيها إلخ) أي في النية المعينة لا مطلقا؛ لأن ما لا يشترط له التعيين يكفيه أن يعلم بقلبه أن يصوم فلا منافاة بين ما هنا وما قدمناه عن الاختيار وأفاد ح: أن العلم لازم النية التي هي نوع من الإرادة إذ لا يمكن إرادة شيء إلا بعد العلم به (قوله: والسنة) أي سنة المشايخ لا النبي صلى الله عليه وسلم لعدم ورود النطق بها عنه ح (قوله: أن يتلفظ بها) فيقول: نويت أصوم غدا أو هذا اليوم إن نوى نهارا لله عز وجل من فرض رمضان، سراج". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں