بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری بند کرنے میں جلدی کرنااور افطار کرنے میں تاخیر کرنا


سوال

 ہمارے ضلع موسی خیل میں علماء حضرات آج کل کی  جدت مطلب انٹرنیٹ سے کافی اختلاف رکھتے ہیں، رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، رمضان کیلینڈر میں افطاری کا  وقت داخل ہونے کے بعد 7 سے 8 منٹ بعد افطار کیا جاتا ہے۔ اور عذر یہ ہے کہ احتیاط ضروری ہے، اوراسی طرح سحری میں بھی اذان سے 10 منٹ پہلے  سحری بند کی جاتی  ہے۔ جب کہ اسی 10 منٹ کے وقفے میں کچھ اذانیں  بھی ہوجاتی ہیں، جو وقت داخل ہونے سے پہلے دی جاتی ہیں۔ اور لوگ اذان سنتے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں، جب کہ آس پاس کے شہروں میں جنتری میں احتیاط صرف 2منٹ رکھے گئے ہیں  ۔  اور  جو علماء کرام انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں ان کی تعداد قلیل ہے،ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے ۔

کیا افطاری میں 7 سے 8 منٹ احتیاط کے طور پر دیر کرنا جائز ہے؟ کیا ان احادیث مبارکہ کی کھلی نفی نہیں ہے جو افطار کے جلد کرنے کے حق میں بیان ہوئی ہیں ؟ اورصبح وقت سے پہلے اذان پر نماز کی ادائیگی ہو جاتی ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ موجودہ دور میں کیلنڈر ایک قومی،سماجی اور انسانی ضرورت ہے۔تاریخ محفوظ رکھنے کے لیے،واقعات مرتب کرنے کے لیے،لائحہ عمل طے کرنےکے لیے،بیشتر دینی و شرعی مسائل کا لزوم معلوم کرنے کے لیے، ایام وماہ و سال کو یاد رکھنے  کے لیے  کیلنڈر بہت ہی ضروری چیز ہے ،ہر کوئی اگر اپنی رائے سے سحری اور افطاری کا وقت متعین کرنے لگے ،تو اس میں اختلاف ہونا ظاہر ہے ،جو کہ عوام میں شدید انتشار کا باعث ہوگا۔

(1)لہذا  اگر آپ کے علاقے میں موجود کیلینڈر کسی معتبر ادارہ کی طرف سے شائع ہوئے ہیں  ،اور ا س میں علماء کرام کی تصدیقات بھی  موجود ہیں ،تو اسی کلینڈر   کے مطابق عمل کرنا چاہیے،   لہذا آپ کے علاقے کے لوگوں یا بعض علماء کا مذکورہ کلینڈر  کو  محض  جدت پسندی کہہ کر رد کردینا درست نہیں ۔

باقی مختلف علاقوں میں شائع شدہ  کیلینڈروں کے اوقات اور حقیقی مشاہدے میں بہت معمولی(مثلا ایک منٹ کا)  فرق ہوتاہے،اس لیے احتیاطا ً اگر کوئی شخص  ایک ،دو منٹ  بعد افطاری کرتا ہے ،تو  یہ تاخیر نہیں کہلائے گی ،البتہ افطار کرنے میں  7/ 8  منٹ تک تاخیر کرنا  یہ عمل  قطعا مناسب نہیں جب کہ آپ علیہ السلام  کا فرمان ہے کہ:  جب رات اس طرف (مشرق) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ دار افطار کرلے۔

(2) اور وقت سے پہلے اذان دینا معتبر نہیں،وقت داخل ہونے کے بعد دوبارہ اذان دینی ہوگی ،اور جن لوگوں نے وقت سے پہلے دی گئی اذان کی بنیاد پر اپنی اپنی فجر کی نماز وقت داخل ہونے سے پہلے  پڑھ لی ہوں ،ان پر نماز کا  اعادہ /قضا لازم ہے ۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب قال:اذا اقبل اللیل من ھاھنا، ‏‏‏‏‏‏وادبر النھار من ھاھنا، ‏‏‏‏‏‏وغربت الشمس، ‏‏‏‏‏‏فقد افطر الصائم."

(باب متي يحل فطر الصائم ،ج:3،ص:36،ط:مصطفي البابي الحلبي)

بخاری شریف میں ہے:

"عن ‌سهل بن سعد : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر."

(باب تعجيل الافطار ،ج:3،ص:36،ط:السلطانية بولاق مصر)

قرآن کریم میں ہے:

"اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا."

(سورة النساء ،103)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنھا الوقت لان الوقت کما ھو مسبب لوجوب الصلاۃ فھو شرط لادائھا۔۔۔۔۔۔۔ حتی لا یجوز اداء الفرض قبل وقتہ ."

(فصل شرائط اركان الصلاة،ج:1،ص:121،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں