بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صحت مند شخص کے لیے روزے کا کفارہ بالمال دینے کا حکم


سوال

جب کوئی صحت مند آدمی روزے  کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرے تو وہ کفارہ بالمال دے سکتا ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کفارہ واجب ہونے کی صورت میں صحت مند شخص کے لیے کفارے  میں  مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے،اگر کوئی صحت مند شخص  ساٹھ مسلسل روزے رکھنے کی قدرت رکھتا ہو تو اس کے لیے کفارہ بالمال  اد ا کرنا درست نہیں، روزے رکھنا لازم ہے،  اگر اس کی  قدرت نہ ہو تو کفارہ بالمال دے سکتا ہے یعنی ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 412):
"كفارة المظاهر) الثابتة بالكتاب، وأما هذه فبالسنة ومن ثم شبهوها بها.

(قوله: ككفارة المظاهر) مرتبط بقوله: وكفر أي مثلها في الترتيب؛ فيعتق أولاً، فإن لم يجد صام شهرين متتابعين، فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينًا؛ لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة، فلو أفطر ولو لعذر استأنف إلا لعذر الحيض، وكفارة القتل يشترط في صومها التتابع أيضًا، وهكذا كل كفارة شرع فيها العتق، نهر، وتمام فروع المسألة في البحر، وفيه أيضًا: ولا فرق في وجوب الكفارة بين الذكر والأنثى والحر والعبد والسلطان وغيره، ولهذا صرح في البزازية بالوجوب على الجارية فيما لو أخبرت سيدها بعدم طلوع الفجر عالمةً بطلوعه فجامعها مع عدم الوجوب عليه وبأنه إذا لزمت السلطان، وهو موسر بماله الحلال وليس عليه تبعة لأحد يفتى بإعتاق الرقبة، وقال أبو نصر محمد بن سلام: يفتى بصيام شهرين؛ لأن المقصود من الكفارة الانزجار ويسهل عليه إفطار شهر وإعتاق رقبة فلايجعل الزجر. اهـ. (قوله: ومن ثم) أي من أجل ثبوت كفارة الظهار بالكتاب وثبوت كفارة الإفطار بالسنة، شبهوا الثانية لكونها أدنى حالا بالأولى لقوتها بثبوتها بالكتاب ط". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں