بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صحت کارڈکاحکم


سوال

فتویٰ نمبر: 144308101831  سائل نے آپ سے صحت کارڈ کے متعلق سوال پوچھا تھا جس کا آپ نے بخوبی جواب دیا، چونکہ سائل غیر عالم ہےتو  آپ نے جوجواب لکھ کر دیا، وہ سمجھ نہیں سکا، لہذا گزارش ہے کہ آسان اور سادہ الفاظ میں راہ نمائی فرمائیں، پریمیم والی بات بھی سمجھ نہیں آئی۔

جواب

واضح رہے کہ پریمیم  (جس کوتامین الاشیاء بھی کہتے ہے)اس کی صورت یہ ہوتی ہےکہ اگرکوئی شخص کسی سامان مثلاً: : گاڑی ، موٹر سائیکل ، عمارت، کار ، اور بحری جہاز وغیرہ کا بیمہ کروانا چاہتاہے ،تو وہ  متعین شرح سے بیمہ کمپنی کو فیس اداکرتا ہے، جس کو پریمیم (Premium) کہتے ہیں ، اور اس سامان کو حادثہ لاحق ہونے کی صورت میں کمپنی اس کی مالی تلافی وتدارک کردیتی ہے ، اور اگر اس سامان کو کوئی حادثہ لاحق نہ ہوا ہو، تو ایسی صورت میں بیمہ دار نے جو پریمیم (Premium)ادا کیا ہے ،وہ واپس نہیں ملتا ہے،صورتِ مسئولہ کی تفصیل یہ ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق حکومت سے جاری شدہ صحت کارڈ  (صحت انصاف کارڈ)  ایسے افراد کو فراہم کیا جاتا ہے جو  حکومت کے مقرر کردہ ایک خاص معیار کے مطابق اس کارڈ کےذریعہ علاج کروانے کے مستحق ٹھہرتے  ہیں، اُن افراد سے اس کارڈ کی کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی، بلکہ حکومت خود عوام کی طرف سے  اس کارڈ کی رقم جمع کراتی ہے، پھر مریض اس کارڈ کے ذریعہ کسی سرکاری یا نجی ہسپتال میں اپنا علاج کرواتا ہے، یہ بات بھی واضح رہےکہ حکومت اس کارڈ کی مد میں بہت تھوڑی رقم جمع کرواتی ہے، جب کہ مریض کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور وہ زائد رقم انشورنس کمپنیاں اپنی طرف سے ادا کرتی ہیں۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے حاملِ کارڈ (اگرصاحب استطاعت ہوتواس)کے لیے اس کارڈ کے ذریعہ صرف اُسی قدر رقم کے بقدر سہولیات حاصل کرنا جائز ہو گا  جتنی رقم اُس کی طرف سے حکومت نے جمع کروائی ہے، اس سے زائد جو رقم انشورنس کمپنی کی طرف سے ادا کی جاتی ہے، اُس سے استفادہ کرنا اور اس کے ذریعہ علاج کروانا جائز نہیں۔

البتہ اگر کوئی شخص مستحقِ زکاۃ ہو تو وہ اس کارڈ سے علاج کی سہولت حاصل کر سکتا ہے؛ اس لیے کہ مذکورہ سودی معاہدہ حکومت کا ہے اور اس میں مستحق شخص بلاواسطہ شامل نہیں ہے،لِہذا وہ دونوں صورتوں میں اپناعلاج کرواسکتاہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں