بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سگریٹ کے کاروبار کا حکم


سوال

ایک شخص  پاکستان میں سگریٹ خرید تا ہے،  اور قطر بھیج کر  وہاں پر فروخت کرتا ہے،  جس میں وہ بہت منافع کماتا ہے،  مثلاً پاکستان میں 2500 روپے  پر خریداری کی ہے،  اور وہاں پر درہم کے حساب سے فروخت کرتا ہے،  کیا یہ کمائی جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ سگریٹ نوشی منہ میں بدبو کا سبب ہونے کی وجہ سے مکروہِ تنزیہی ہے، ناجائز نہیں ہے، لہٰذا سگریٹ کا   کاروبار جائز ہے، اور اس کی آمدنی جائز  ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا پاکستان میں سگریٹ خرید کر قطر میں فروخت کرنا جائز ہے، لیکن مکروہِ تنزیہی ہونے کی وجہ سے اس سے احتراز کرنا چاہیے، تاہم اس کی کمائی جائزہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وصح ‌بيع ‌غير ‌الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون ....(قوله وصح ‌بيع ‌غير ‌الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها.ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية وكان ينبغي للمصنف ذكر ذلك قبيل الأشربة المباحة، فيقول بعد قوله ولا يكفر مستحلها: وصح بيعها إلخ كما فعله في الهداية وغيرها، لأن الخلاف فيها لا في المباحة أيضا إلا عند محمد فيما يظهر مما يأتي من قوله بحرمة كل الأشربة ونجاستها تأمل. (قوله مما مر) أي من الأشربة السبعة (قوله ومفادة إلخ) أي مفاد التقييد بغير الخمر، ولا شك في ذلك لأنهما دون الخمر وليسا فوق الأشربة المحرمة، فصحة بيعها يفيد صحة بيعهما فافهم."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:454، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول سمته اهـ قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه. (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال ) میں نے ایک دکان فی الحال کھولی ہے جس میں متفرق اشیاء ہیں، ارادہ ہے کہ سگریٹ اور پینے کا تمباکو بھی رکھ لوں، یہ ناجائز تو نہیں ہوگا ؟

( جواب ۱۶۳) سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے او ر اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے۔محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ ۔"

(کتاب الحظر والاِباحۃ، آٹھواں باب، ج:9، ص:148، ط:دار الاِشاعت)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

الجواب حامداً ومصلیاً:

"تمباکو کی کاشت بھی جائز ہے اور تجارت بھی جائز ہے، استعمال بھی جائز ہے، الا یہ کہ وہ نشہ آور ہو تب منع کیا جائے گا، مسجد میں جانے کے لیے منہ صاف کر کے اس کی  بدبو کو  زائل کر نے کا اہتمام کیا جائے۔"

(کتاب الحظر والاِباحۃ، تمباکواور چونے وغیرہ کے استعمال کا بیان، ج:18، ص:397، ط:اِدارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144508100764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں