علم سیرت، فقہ سیرت، اور تطبیق سیرت کے بارے میں راہنمائی فرمائیں۔
علم سیرت:
علمِ سیرت محمد ﷺ، ان کے خاندان، قباہل عرب، غزوات، سرایا، نزول قرآن کا دور، حدیث و سنت، جغرافیہ عرب وغیرہ کا مطالعہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے کرنے کو کہتے ہیں۔(مفہوم: محاضرات سیرت)
فقہ سیرت:
فقہ السیرۃ سے مراد نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا گہرا فہم وادراک ہے۔
تطبیق سیرت:
سیرت کا دارومدار روایت اور نقل پر ہےاور روایت اور نقل میں اختلاف کا ہونا ایک فطری امر ہے۔روایات سیرت میں اس اختلاف کے تطبیق یا ترجیح پرمختلف اہل علم نے کام کیاہے اور اسی کو "تطبیق سیرت" کہاجاتاہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اپنی کتاب "محاضرات سیرت" میں تحریر فرماتے ہیں:
علم سیرت ایک وسیع کینوس رکھتا ہے۔ اس وسیع کینوس کی وضاحت کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پورے اسلامی تمدن اور تاریخ کے مرحلہ آغاز اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے پیغمبر انہ کیرئر کا ایک لینڈ اسکیپ۔ اس لینڈ اسکیپ میں وہ سب کچھ شامل ہے جس کا اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے کوئی تعلق ہو ۔اس میں مغازی کا تذکرہ بھی ہے۔ اس میں سیرت پاک کے دوران وقوع پانے والے اہم واقعات بھی ہیں۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی طرز عمل اور سنتیں بھی ہیں جن کو سنن زوائد کے نام سے یاد کیا گیا۔ ان میں ان قبائل کا تذکرہ بھی ہے جن سے رسول اللہ کا تعلق رہا۔ قبیلہ قریش جو رسول اللہ کا اپنا قبیلہ تھا۔ پھر اس کی شاخیں، پھر شاخوں کی شاخیں۔ ان میں سے ہر قبیلے کے ساتھ حضور کا کوئی نہ کوئی تعلق رہا۔ یا حضور کا اپنا تعلق رہا ،یا آپ کے والد کا تعلق رہا ،یا دادا کا ،یا والدہ کا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد مبارکہ ، آل کی تفصیلات ہیں۔ یہ بھی سیرت کا ایک اہم باب ہیں۔
(محاضرات سیرت، پہلا خطبہ: مطالعہ سیرت کی ضرورت واہمیت، ص: 23،22، ط: الفیصل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100045
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن