بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیعہ کو ہدیہ دینے اور لینے کا حکم


سوال

 شیعہ حضرات سے قربانی کا گوشت آیا ہے اور کھانا بھی آیا ہے،  کیا ان کا گوشت ہم اپنے گھر میں استعمال کر سکتے ہیں اور کھا سکتے ہیں؟  اور اپنے گھر کا کھانا اور چیزیں ان کو دے سکتے ہیں کھانے کے لیے؛ کیوں کہ ان کا کلمہ بھی دوسرا ہے اور ان کا طریقہ کار مجھے نہیں معلوم قربانی کا کیا ہے؟  مہربانی فرما کے  یہ الجھن اور پریشانی دور کریں؛ تاکہ  دل ہی سکون ہو ،  اسلامی  طریقے سے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جو شیعہ ضروریاتِ دین  کا منکر ہو،  (مثلاً: قرآنِ مجید میں تحریف یا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی الوہیت یا حضرت جبرئیل  کے وحی لانے میں  غلطی کا قائل ہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا منکر ہو، یا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی پر بہتان باندھتا ہو وغیرہ )  یا جانور ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام بھی لیتا ہو تو  اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہے، لہذا  شیعہ  کے گھر سے آیا ہوا  گوشت  کھانے سے اجتناب کریں ۔ گوشت کے  علاوہ کھانا عام حالات میں کھانے کی گنجائش ہے، محرم اور اس کے مابعد کے دنوں میں ہو تو اجتناب  کریں۔  نیز اپنے ہاں پکا ہوا کھانا ان کے گھر بھیج سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لا شك في تکفیر من قذف السیدة عائشة رضي اللّٰه عنها أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد الألوهیة في علي أو أن جبرئیل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الکفر الصریح المخالف للقرآن".

(باب المرتد / مطلب مهم: في حکم سب الشیخین،237/4، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

قال محمد – رحمه الله تعالى – ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد – رحمه الله تعالى – الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط.

(کتاب الکراھیۃ،الباب الرابع عشر،347/5،المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502102283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں