بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سیکیورٹی ڈپازٹ سے معتاد ماہانہ کرایہ وضع کرنے کاحکم


سوال

 زید ایک شہر میں مقیم ہے، جہاں اسے کرایے کے مکان کی سخت ضرورت ہے، شہر میں چند ایک مسجد و مدرسہ کے موقوفہ مکانات بھی ہیں، جو کرایہ پر برائے رہائش دیے جاتے ہیں، مگر ان موقوفہ جائیدادوں کے متولیان حسبِ روایات ِزمانہ  کرایہ  دار سے معاملہ کرتے وقت سیکیورٹی ڈپازٹ کے نام پر ایک خطیر رقم پیشگی وصول کرتے ہیں، جو عموماً چار پانچ سال کے کرایے کے مساوی ہوتی ہے، یہ رقم کرایہ داری ختم ہونے پر کرایہ  دار کو واپس کی جاتی  ہے، اور مکان کا کرایہ الگ سے طے کیا جاتا ہے جو ہر ماہ واجب الادا ہوتا ہے، اب دریافت طلب امور یہ ہیں کہ:

 1: اگر متولیان راضی ہوں، تو کیا زید از روئے شرع، معتاد ماہانہ کرایہ جمع شدہ سیکیورٹی ڈپازٹ سے وضع کر سکتا ہے ؟ یہاں تک کہ وہ ساری رقم کرایے میں چک جائے، اور رقم باقی رہنے کی صورت میں بقیہ رقم زید کرایہ  داری ختم ہونے پر متولیان سے واپس لے لے ؟

2۔ مکان میں ٹوٹ پھوٹ اور مرمت کی ضرورت پڑنے پر کیا زید مرمت کا صرفہ بھی شرعاً سیکورٹی ڈپازٹ سے شمار کر سکتا ہے؟

3۔ دریں صورت کہ زید معتاد ماہانہ کرایہ الگ سے ادا کرتا رہا، تو کیا کرایہ  داری ختم ہونے پر وہی جمع شدہ سیکیورٹی ڈپازٹ کی رقم واپس لینے کا حق دار ہوگا؟ یا ہندوستانی روپے  کی قیمت گرنے یا بڑھنے کی صورت میں کسی اور چیز سے مثلاً ڈالر سے اندازہ کر کے شرعاً جمع شدہ رقم کا مطالبہ کمی اور بیشی کے ساتھ بھی کر سکتا ہے؟ 

جواب

1: واضح رہے کہ سیکیورٹی ڈپازٹ  کے طور پر جمع کی گئی رقم  ابتداءً امانت اور  انتہاءً قرض ہوتی ہے ،لہذا  صورتِ مسئولہ میں متولیان  کی رضامندی سے زید  معتاد ماہانہ کرایہ سیکیورٹی ڈپازٹ سے وضع کرسکتاہے۔

2:واضح رہے کہ مکان میں ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں مرمت کی ذمہ داری مالکِ مکان کی ہوتی ہے ،اگر کرایہ دار مالک کی اجازت کے بغیر وہ کام کرلے تووہ  اس کے بارے میں مالک پر رجوع نہیں کرسکتا اور نہ اسے کرایہ میں سے شمار کرسکتا ہے ،اور اگر مالک کی اجازت سے کرے تو اس صورت میں وہ مالک سے رجوع کر سکتا ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں زید اگر ان متولیان کی اجازت سے وہ  مرمت کا کام کرے تو اس سلسلے میں وہ متولیان سے اس کا خرچہ لے سکتا ہے اور اگر ان کی اجازت کے بغیر یہ مرمت کا کام کیا تو وہ اس سلسلے میں متولیان سے رجوع نہیں کر سکتا،اور نہ اسے سیکورٹی ڈپازٹ میں سے شمار کر سکتاہے۔

3: قرض لیتے یا دیتے وقت جس کرنسی میں قرض دیا گیا ہو ،واپسی کی صورت میں وہی کرنسی واپس کی جائے گی،چاہے واپسی کے وقت اس کرنسی کی مالیت بازار میں کم ہوچکی ہو یا زیادہ ہوچکی ہو،چناں چہ اگر کسی نے مثلًا ایک سال پہلے ایک لاکھ روپے قرض لیا ہو اور اس وقت ایک لاکھ روپے میں ایک تولہ سونا آتا ہو، لیکن آج قرض ادا  کرتے وقت ایک تولہ سونا سوا لاکھ کا ہوچکا ہو تب بھی آج اگر وہ قرض واپس کر رہا ہے تو ایک لاکھ روپے ہی ادا  کرنے کا پابند ہے،اس سے اگر قرض خواہ ایک لاکھ سے زائد کا مطالبہ کرے گا تو یہ سود کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگا،لہذا سیکیورٹی ڈپازٹ کے طور پر جمع کرائی گئی رقم چوں کہ قرض کے حکم میں ہوتی ہے ،تو اس رقم کی واپسی کے وقت اتنی ہی رقم واپس کی جائے گی جتنی سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر دی گئی تھی ،کرایہ دار اس رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

الوسیط فی شرح القانون المدنی  میں ہے:

"و قد يودع مبلغ من النقود أو شيئ آخر مما يهلك بالإستعمال و يكون المودع عنده مأذونا له في إستعماله فلا يرده بالذات و لكن يرد مثله ،و هذه هي الوديعة الناقصة و هي تعتبر قرضا."

( عقد الوديعة ، الفصل الأول أركان الوديعة ، الفرع الثاني :المحل و السبب في عقد الوديعة ، الأشياء التي يجوز إيداعها  ، ج:7، الجزء الأول ، ص:  698، ط: دار إحياء التراث العربي )

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"أعمال الأشياء التي تخل بالمنفعة المقصودة عائدة على الآجر: مثلا تطهير الرحى على صاحبها... كذلك تعمير الدار وطرق الماء وإصلاح منافذه وإنشاء الأشياء التي تخل بالسكنى وسائر الأمور التي تتعلق بالبناء كلها لازمة على صاحب الدار وإن امتنع صاحبها عن أعمال هؤلاء فللمستأجر أن يخرج منها إلا أن تكون حين استئجاره إياها كانت على هذه الحال وكان قد رآها فإنه حينئذ يكون قد رضي بالعيب فليس له اتخاذ هذا وسيلة للخروج من الدار بعد وإن عمل المستأجر هذه الأشياء منه كانت من قبيل التبرع فليس له طلب ذلك المصروف من الآجر...وكذا تطيين سطح الدار أي أن إصلاح السطح لمنع تسرب مياه المطر إلى داخل الدار عائد على الآجر لأن عدمه مخل بالسكنى بخلاف تكليس جدرانها (رد المحتار) كذلك تعمير الدار المأجورة وطرق الماء وإصلاح مجاريه وكري بئر الماء وإصلاحها ولو خربت باستعمال المستأجر إياها، وإنشاء الأشياء التي تخل بالسكنى ووضع الزجاج للنوافذ وغيرها وإصلاح الدرج وسائر الأمور التي تتعلق بالبناء كلها لازمة على الآجر إذا كانت ملكا وعلى الواقف إذا كانت وقفا (الهندية في الباب السابع عشر والخيرية).

وإن عمل المستأجر هذه الأشياء منه كانت من قبيل التبرع وليس له طلب ذلك المصروف من الآجر أو أن يحسبه من الأجرة أما إذا عمله بإذن الآجر فله الرجوع به عليه."

(كتاب الإجارة،‌‌الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه، الفصل الأول في بيان مسائل تتعلق بإجارة العقار وأحكامها،608،609/1،ط: دار الجيل)

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل : 320/4، ط: سعید)

مبسوط میں ہے:

"‌أما ‌في ‌باب ‌القرض ‌فالشرط إعتبار المماثلة في العين المقبوضة وصفة المالية."

(كتاب الصرف،  باب البيع بالفلوس، 33/14 ،ط:دار المعرفة)

العقود الدريۃفی تنقيح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم و تصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟

(الجواب) : نعم و لاينظر إلى غلاء الدراهم و رخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

(كتاب البيوع،  باب القرض، 1/ 279 ،ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں