بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیکیورٹی اداروں کا مہمانوں سے رقم وصول کرنا


سوال

ہمارے ہاں بیرون ملک سے سرکاری سطح پر مہمان تشریف لاتے ہیں، جن کی سیکیورٹی اور حفاظت ہمارے ذمہ ہوتی ہے، مذکورہ مہمانوں میں مختلف حیثیت اور وزارتوں کے حامل  افراد بھی موجود ہوتے ہیں۔

یقیناً شرعاً و اخلاقاً ایک مسلمان ملک پر ان سرکاری مہمانوں کا اکرام اور ان کی حفاظت لازم کے درجے میں ہے، البتہ حفاظت میں فرق مراتب کے لحاظ سے شخصیات کا خیال رکھا جاتا ہے، کچھ مہمان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو سخت سیکیورٹی اور انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

سرکار کی جانب سے جو گاڑیاں اور حفاظتی عملہ مذکورہ مہمانوں کی حفاظت کی خاطر مقرر کیا جاتا ہے، اسے بعض مہمان حضرات غیر مطمئن اور غیر محفوظ سمجھتے ہیں، اور پروٹوکول بڑھانے کی خاطر مزید گاڑیوں  اور حفاظتی عملے کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ ہمارے بجٹ سے زیادہ اور وسعت سے خارج ہوتا ہے، جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ حفاظتی عملہ اور گاڑیاں ان کی حفاظت  اور پروٹوکول کے لیے کافی ہوتی ہیں۔

لہذا مذکورہ مہمانوں سے ہم بجٹ پورا کرنے اور ان کی مطلوبہ پروٹوکول مکمل کرنے کی خاطر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، جس رقم سے ان کے لیے مزید عملہ اور گاڑیوں کا انتظام کیا جاتا ہے، شرعاً اس رقم کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کی حفاظت سرکار کے ذمہ ہے تو اضافی پروٹوکول کا بندوبست بھی سرکار کی طرف سے لازم ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو سرکاری مہمان بیرون ممالک سے آتے ہیں اُن کی حفاظت کرنا اور اُن کو سیکیورٹی اور پروٹوکول فراہم کرنا چونکہ میزبان ملک کی ذمہ داری ہے اس لیے میزبان سرکار ہی سے  رقم کا مطالبہ کیا جائے؛  تا کہ سرکار کی طرف سے ملنے والی رقم  سے مہمانوں کی  حفاظت اور سیکیورٹی کا انتظام کیا جائے، اب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ "حکومت کی جانب سے مقرر کردہ حفاظتی عملہ اور گاڑیاں  ان کی حفاظت اور پروٹوکول کے لیے کافی ہوتی ہیں" تو اس صورت میں بعض مہمانوں کے مذکورہ مطالبہ سے حکومتی ذمہ داروں کو آگاہ کیا جائے، حکومت کی اجازت کے بغیر مہمانوں سے مذکورہ مد کے لیے رقم لینا جائز نہیں ہو گا، نیز بعض حضرات کا مذکورہ موقِف شرعاً درست ہے۔

 یاد رہے کہ جو رقم سرکار کی طرف سے یا مہمانوں کی طرف سے سائل کو یا اُس کے ادارے کو دی جاتی ہے وہ رقم اُس کے پاس امانت ہو گی اور اُس کو محض اُسی مَصرف میں خرچ کرنا جائز ہو گا جس مَصرف کے لیے وہ رقم دی گئی ہے، اُس رقم کو دیگر مصارف میں خرچ کرنا جائز نہیں ہو گا۔

الموسوعۃ الفقہیۃ  الکویتیہ میں ہے:

‌‌أنواع الوكالة باعتبار محلها:

تتنوع الوكالة باعتبار المحل: إلى وكالة خاصة، ووكالة عامة.

‌‌أ - الوكالة الخاصة:

 الوكالة الخاصة هي ما كان إيجاب  الموكل فيها خاصا بتصرف معين، كأن يوكل إنسان آخر في أن يبيع له سلعة معينة. وفي هذه الحالة لا يجوز للوكيل أن يتصرف إلا فيما وكل به، باتفاق الفقهاء۔

(الوکالۃ، ج:45، ص:26، ط:طبع الوزارة)

الموسوعۃ الفقہیۃ  الکویتیہ میں ہے:

‌‌الوكيل أمين:

138 - اتفق الفقهاء على أن الوكيل أمين على ما تحت يده من أموال لموكله فهي بمنزلة الوديعة ..... ولا فرق في ذلك بين ما إذا كان يعمل بالأجر أو كان متبرعا بالعمل۔

(الوکالۃ، ج:45، ص:86، ط:طبع الوزارة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں