بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیکیورٹی پر مکان لینا


سوال

سکیورٹی پر مکان لینا جسمیں لینے والا، دینے والے کے پاس ،پیسے جمع کردیتا ہے اور پھر مکان خالی کرتے وقت وہ اپنے پیسے واپس لے لیتا ہے یہ صورت ناجائز ہے؟ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مکان خالی کرتے وقت جتنے دن وہ اسمیں رہا اتنے دنوں کے پیسے دینا ضروری ہے کیا؟ جبکہ پیسے نہ دینے پر مکان دینے والا بھی راضی ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  مالک مکان کا  کر ایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر (ایڈوانس)  رقم وصول کرناشرعاً جائز ہے، اور یہ رقم فی نفسہ مالک کے پاس امانت ہوتی ہے، البتہ چوں کہ عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ اس بنا پر  یہ رقم شرعاً مالک کے ذمے  قرض شمار  ہوگی، اور اس پر قرض والے اَحکام لاگو ہوں  گے۔باقی اگر مالک مکان کرایہ دارسے پیسے نہیں لیتا تو اس طرح کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ کرایہ نہ دینے کو ایڈوانس کی رقم کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو اگر یوں طے کیا گیا کہ کرایہ دار ایڈوانس دے گا تو کرایہ نہیں لیا جائے گا تو  یہ معاملہ سود کی اقسام میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔ 

النتف فی الفتاوی میں ہے:

‌‌‌"انواع ‌الربا واما الربا فهو ثلاثة اوجه احدها في القروض والثاني في الديون والثالث في الرهون‌‌الربا في القروض فاما في القروض فهو على وجهين احدها ان يقرض عشرة دراهم باحد عشر درهما او باثني عشر ونحوها والآخر ان يجر الى نفسه منفعة بذلك القرض او تجر اليه وهو ان يبيعه المستقرض شيئا بارخص مما يباع او يؤجره او يهبه  او يضيفه او يتصدق عليه بصدقة او يعمل له عملا يعينه على اموره او يعيره عارية أو يشتري منه شيئا بأغلى مما يشتري او يستأجر اجارة باكثر مما يستأجر ونحوهاولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فان ذلك ربا وعلى ذلك قول ابراهيم النخعي كل دين جر منفعة لا خير فيه."

(انواع الربا جلد ۱ ص : ۴۸۴ ، ۴۸۵ ط : دارالفرقان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص :۶۳ ، ۶۴  ط : دارالفکر)

آپ کے مسائل اور ان کے حل  میں ہے:

"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔
س… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے  واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

ج… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے  لیے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔"

(کرایہ دار سے لی ہوئی رقم کا شرعی حکم جلد ۷ ص:۱۶۷ ، ۱۶۸ ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401100062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں