میری ایک چھوٹی سی دکان ہے جس سے میں پانچ ریال روزانہ کی بنیاد پر رکھ لیتا ہوں ایک ماہ میں ایک سو پچاس ریال بنتے ہیں کیا میں ان پیسوں کو اپنی بہنوں پر خرچ کر سکتا ہوں اور اس پیسوں کو صدقہ کہیں گے یا اللہ کی راہ میں خرچ؟
صورت مسئولہ میں زکوۃ ، اور صدقہ نفلی کے سب سے زیادہ حقدار ہمارے قریبی مستحق زکوۃ رشتہ دار ہیں ، رشتہ داروں پر خرچ کرنےپر زیادہ ثواب ملتا ہے اس لیے کہ اس میں صلہ رحمی بھی ہے، لہذا سائل مذکورہ پیسوں کو اپنی بہنوں پر خرچ کرسکتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے :
"عن جابر بن عبد الله، رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: كل معروف صدقة".
(بخاری ،کتاب الادب ، باب کل معروف صدقة ،11/8،السطانیة)
فتاوی شامی میں ہے :
"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولی؛ لأنه صلة وصدقة. وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران، ولو دفع زكاته إلی من نفقته واجبة عليه من الأقارب جاز إذا لم يحسبها من النفقة بحر وقدمناه موضحا أول الزكاة."
( باب مصرف الزکوۃوالعشر،346/2،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100507
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن