کیا پرائيویٹ اسلامک اسکول میں یونیفارم، کتابیں اور کاپیوں کی بیع جبراً غبنِ فاحش کے ساتھ جائز ہے کیوں کہ کچھ اسلامک اسکول طلبہ کو اس کا پابند بناتے ہيں کہ ہمارے یہاں سے ہی مذکورہ خریدی ہوئی چیزیں معتبر ہوں گی، ورنہ نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اسکول والوں کے لیے یونیفارم، کتابیں کاپیاں وغیرہ زبردستی بہت زیادہ قیمت پر بیچنا اس طور پر کہ ان کے علاوہ یہ چیزیں کسی اور کے پاس دستیاب نہ ہوں جائز نہیں ہے، اگر اس جیسا یونیفارم، کتابیں، کاپیاں وغیرہ کہیں اور سے خریدلی جائیں، تو اسکول والوں کے لیے ماں باپ کو اس کا پابند کرنا کہ وہ ہم سےہی یہ تمام چیزیں خریدیں جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر اس جیسا یونیفارم وغیرہ کہیں اور نہیں ملتا، تو اسکول والوں کو چاہیے کہ مناسب قیمت پر یہ تمام چیزیں فروخت کریں، تاکہ والدین خوش دلی کے ساتھ یہ چیزیں ان سے خریدیں۔غبن فاحش والا ریٹ مقرر کرنا درست نہیں ، یہ زیادتی اور مکروہ تحریمی ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."
(كتاب البيوع، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(قال: قال: رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " ألا ") بالتخفيف للتنبيه (" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى."
(كتاب البيوع، ج:5، ص:1974، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602102723
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن