میں ایک اسکول ٹیچر ہوں، اسکول کی ٹائمنگ میں اپنے سارے اسباق مکمل کروالیں اور کبھی ضرورت ہو اور ٹائمنگ سے تھوڑا پہلے گھر چلے جائیں، تو کیا یہ ناجائز ہے؟ بچوں کی پڑھائی کا حرج بالکل بھی نہ ہو، اس صورت میں بھی گھر جانا غلط ہے؟ اور اب طلبہ کی ٹائمنگ 01:30 بجے تک ہے اور ٹیچرز کا ٹائم 02:30 بجے تک ہے، تو کچھ ٹیچرز 01:30 گھر چلے جاتے ہیں اور کچھ پورے وقت کے بعد جاتے ہیں، اس صورت میں راہ نمائی چاہیے کہ جو جلدی جاتے ہیں، وہ غلط ہے کیا؟ کیوں کہ جو اسکول میں موجود ہوتے ہیں، وہ بھی تقریباً فارغ ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسکول ٹیچر اجیر خاص کے حکم میں ہوتا ہے اور اجیر خاص وہ ہوتا ہے، جو اپنے وقت کے بدلے اجرت کا مستحق ہوتا ہے، اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنا مقررہ وقت پورا کرے، چاہے اس وقت میں کوئی کام ہو یا نہ ہو۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ پر لازم ہے کہ اسکول کی طرف سےٹیچرز کے لیے جو وقت مقرر ہے، آپ وہ وقت پورا دیں، اس سے پہلے گھر جانا جائز نہیں ہے، اگرچہ فراغت ہو اور اس وقت میں کوئی کام نہ ہو، البتہ اگر کبھی کوئی ضروری کام ہو، تو ہیڈماسٹر یا پرنسپل یا ان کے نائب سے اجازت لے کر جانا جائز ہے اور جو ٹیچر بغیر اجازت کے وقت سے پہلے جائے، اس کے لیے اس وقت کی تنخواہ لینا درست نہیں ہے،ہاں اگر ادارہ والے وقت سے پہلے جانے کی اجازت دیں تو جائز ہو گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وفي فتاوى الفضلي - رحمه الله تعالى - : إذا استأجر رجلا يوما ليعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى أهل سمرقند قد قال بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى: إن له أن يؤدي السنة أيضا واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى، كذا في الذخيرة ... استأجر نجارا يوما إلى الليل فأمره آخر أن يتخذ له دوارة بدرهم فاتخذ، إن علم أنه أجير لا يحل، وإن لم يعلم لا بأس وينقص من أجر النجار قدره إلا أن يجعله في حل، كذا في الوجيز للكردري."
(كتاب الإجارة، ج:4، ص:417، ط:دار الفكر)
فتح القدير للكمال میں ہے :
"أن الأجير الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."
(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد ج:9، ص:140، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603103212
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن