بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکولوں میں تعطیل کے ایام کی ٹرانسپورٹ فیس لینا


سوال

میں نے یہاں بنوری ٹاؤن میں ایک سوال جمع کیا تھا،اس کا جواب آچکا،جس کانمبر: (144308101049)ہے،میری مکرر گزارش ہے کہ اس جواب سے  میں متفق نہیں ہوں اور مجھے اس بارے میں تفصیل سے واضح کیا جائے کہ ایک ایسا رواج جوپہلے سے جاری ہو اور عوام میں رائج ہو تو وہ کیوں درست ہے؟اس رواج سے میری مراد یہ ہے کہ یہاں اسکولوں کے ٹرانسپورٹ سروس والے حضرات کے ہاں یہ رائج ہے کہ وہ جون اور جولائی کے مہینوں کی فیس بچوں کے والدین سے لیتے ہیں ،جب کہ ان دونوں مہینوں میں ان کی سروس اور خدمات استعمال نہیں کی جاتیں ،تو ان کو کس بنیاد پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان دو مہینوں کی فیس وصول کریں ،یہ رواج جو پہلے سے جاری ہے تو اس کا جواز کیوں کر ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں منسلکہ فتویٰ(فتویٰ نمبر:144308101049) میں سائل اور ٹرانسپورٹ والوں کے درمیان معاہدے کی صورت کو ملحوظ رکھ کر تین صورتیں بنائی گئی ہیں :

۱۔ٹرانسپورٹ والوں کے ساتھ ماہانہ بنیاد پر فیس کا معاہدہ ہوا ہو تواس صورت میں جون جولائی کی فیس لیناجائز نہیں ۔

۲۔ٹرانسپورٹ والوں کے ساتھ سالانہ بنیا دپر معاہدہ ہواہو تو جون جولائی کی فیس لیناجائز ہوگا۔

۳۔اگر ٹرانسپورٹ والوں سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو اس صورت میں دیگر اسکولوں کے رواج کے مطابق فیصلہ ہوگا۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ رواج کے مطابق حکم  صرف اس صورت میں ہےجب کوئی معاہدہ نہ ہو،شریعتِ مطہرہ میں عُرف رواج کو بھی احکام کے اثبات میں دخل حاصل ہےبشرطیکہ وہ عُرف ورواج شرعی نصوص وضوابط کے خلاف نہ ہو،اب اگر اسکولو ں کے ٹرانسپورٹ سروس والےحضرات کے ہاں جون ،جولائی کی فیس لی جاتی ہےاور سائل کاان سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہواتووہ جون ،جولائی کی فیس بھی دیں گے،كيوں كہ چھٹی کے دنوں کی تنخواہ یا فیس ہم دیگر اداروں اور شعبہ جات میں بھی لیتے یا دیتے ہیں ،ہفتہ واری چھٹی(جمعہ یا اتوار کےدن)،عید الفطر ،عید الاضحیٰ اور  دیگر دینی وقومی دنوں کے مواقع پر چھٹی کے باوجود ان  دنوں کی  تنخواه اور فیس ہم لے اور دے رہے ہوتےہیں ،ٹرانسپورٹ والے حضرات جون ،جولائی میں چھٹی پرہوتےہیں ،اس کی وجہ اسکول میں پڑھائی نہ ہونا ہے،یہاں تک کہ اگراسکول میں کوئی پروگرام ہو یا پریکٹیکل یاکسی اور علمی سرگرمی کے لیےاسکول والے بلائیں تو ٹرانسپورٹر حضرات  خدمات بھی مہیا کرتےہیں ،اس لیے عُرف ورواج کے مطابق انہیں فیس دی جائے گی۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا أبو عامر العقدي قال: حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين، إلا صلحا حرم حلالا، أو أحل حراما، والمسلمون على شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما»: هذا حديث حسن صحيح".

(أبواب الإحكام ،‌‌باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح بين الناس،ج:1،ص:251)

"الأشباہ والنظائر"میں ہے:

 " ومنها البطالة في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صریحة في کلامهم. والمسألة علٰی وجهین: فإن کانت مشروطةً لم یسقط من المعلوم شیئ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالة القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له من بیت المال في یوم بطالته ، فقال في المحیط: إنه یأخذ یوم البطالة لأنه یستریح للیوم الثاني، وقیل: لایأخذ، انتهى. وفي المنیة: القاضي یستحق الکفایة من بیت المال في یوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان وقال: إنه الأظهر، فینبغي أن یکون کذلک في المدارس؛ لأن یوم البطالة للاستراحة، وفي الحقیقة یکون للمطالعة والتحریر عند ذی المهمة". 

(الفن الأول، القاعدة السادسة: العادة محکمة، ص:96،ط:قدیمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) اعلم ‌أن (‌الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة، أما المضافة فلا تملك فيها الأجرة بشرط التعجيل إجماعا....(أو الاستيفاء) للمنفعة (أو تمكنه منه) ".

(كتاب الإجارة،شروط الإجارة،ج:6،ص:10،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"استأجر حماما وشرط حط أجرة شهرين للعطلة، فإن شرط حطه قدر العطلة صح بزازية".

وفي الرد : (قوله للعطلة) بالضم: اسم من تعطل بقي بلا عمل قاموس ويعني أنها تفسد، وكان الأولى أن يصرح به كما في البزازية لكنه يعلم من مقابله، ووجه الفساد أن مقتضى العقد أن لا تلزم الأجرة مدة العطلة قلت أو كثرت كما في الذخيرة، فتقييد حط الشهرين مما لم يقتضه العقد، بخلاف اشتراط حط قدرها؛ وهذا نظير ما لو شرى زيتا في زق واشترط حط أرطال لأجل الزق فسد، بخلاف حط مقدار الزق".

(کتاب الإجارة،تنبيه تفاسخا عقد الإجارة والزرع بقل،ج:6،ص:44،ط:سعيد)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"والعرف في الشرع له الاعتبار لذا عليه الحكم قد يدار ، قال في المستصفي : العرف و العادة مااستقر في النفوس من جهة العقول و تلقته الطبائع السليمة بالقبول،

في الأشباه والنظائر : السادسة : العادة المحكمة ...... واعلم أن العادة رجع إليه في مسائل كثيرة حتي جعلوا ذلك أصلاالخ".

(تعريف العرف وحجيته، ص : 76 ، 77 ط : بشرى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں