بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول میں لے پالک بچے کی کاپیوں میں اصل والد کی جگہ گود لینے والے کا نام لکھنا


سوال

میں نے اپنے بہن کا بیٹا گود لیا تھا تو اس وقت میں نے زبانی طور پر آپ  کے دار الافتاء میں مفتی صاحب  سے پوچھا تھا کہ بچہ کی ولدیت  میں برتھ سرٹیفیکٹ میں اپنا نام ڈال سکتے ہیں یا نہیں ؟ تو اس پر مفتی صاحب نے یہ جواب دیا تھا کہ ولدیت میں  تو آپ اصل والد کا نام ڈالیں ،چنانچہ اس کے مطابق میں نے بچہ کا سرٹیفیکٹ اپنے بہنوئی (بچہ کے والد ) کے نام پر بنوایا تھا ،اب ہم اقراءروضۃالاطفال میں بچہ کا ایڈمیشن کروارہے ہیں، تو ہم چاہ رہے ہیں  کہ اسکول میں بچہ کی کاپیوں میں  میرا نام چلے، کیوں کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے جب وہ بڑا ہوجائے گا تو ہم اس کے والدین کے  بارے میں بتادیں گے ، اب شرعی لحاظ  سے ہماری رہمنائی فرمائیں کہ کیا ہم صرف اسکول کی کاپیوں وغیرہ میں اس طرح اپنا نام والدیت کے طور پر لکھوا سکتے ہیں ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے اپنی بھانجے کو گود لینا اور لے پالک بنانا جائز اور درست ہے ،  لیکن  بطورِ والد اس بچے  کے کاغذات (documents ) میں اپنا نام  لکھوانا ہرگز جائز نہ ہوگا،  اسی طرح  اسکول کی کاپیوں میں یا ایڈمیشن کے کاغذات میں بھی ولدیت کے خانہ  میں اپنا نام نہیں لکھواسکتے ،البتہ   سرپرست  (Guardian)   کے خانہ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔

قرآن مجید میں  ہے :

﴿وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم  وَاللّٰهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِاٰبآئِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا اٰبآءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَّحيمًا﴿٥﴾ 

 [الأحزاب:4و5]

وفي تفسير ابن كثير:

 وقوله تعالى:وما جعل أدعياءكم أبناءكم هذا هو المقصود بالنفي، فإنها نزلت في شأن زيد بن حارثة رضي الله عنه مولى النبي صلى الله عليه وسلم، كان النبي صلى الله عليه وسلم قد تبناه قبل النبوة، فكان يقال له زيد بن محمد، فأراد الله تعالى أن يقطع هذا الإلحاق وهذه النسبة بقوله تعالى: وما جعل أدعياءكم أبناءكم كما قال تعالى في أثناء السورة: ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين وكان الله بكل شيء عليما [الأحزاب: 40] وقال هاهنا ذلكم قولكم بأفواهكم يعني تبنيكم لهم قول لا يقتضي أن يكون ابنا حقيقيا، فإنه مخلوق من صلب رجل آخر، فما يمكن أن يكون أبوان كما لا يمكن أن يكون للبشر الواحد قلبان.

( ط: العلمية 6/ 336)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں