بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول میں غیر حاضری پر جرمانہ لینا


سوال

 ہمارے ہاں ایک پرائیویٹ سکول ہے،جس میں ایک غیرحاضری پرپچاس روپےجرمانہ لیتےہیں، براہِ کرم مہربانی فرمائیں کہ مذہبِ احناف میں تعزیربالمال جائز ہے یا نہیں؟ زید کا موقف ہے کہ ان دوشرطوں کے ساتھ تعزیر بالمال جائز ہے ۔(1) اگر پہلے سے شرائط میں ڈسپلن کے لیے موجود ہو۔(2) یہ پیسے سکول کےرفاہِ عامہ میں استعمال ہوتےہوں ،یعنی سکول کے بچے اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہوں،کیوں کہ امام ابویوسف کےنزدیک تعزیربالمال جائز ہے۔بکرکاموقف ہے کہ احناف کےہاں کسی بھی صورت میں تعزیر بالمال جائز نہیں ،یہی قول مذہب احناف میں راجح ہے ۔ راہ نمائی فرمائیں کہ مذہب احناف میں راجح قول کس کا ہے؟امام ابوحنیفہ کا یا امام ابویوسف کا؟اور اس مسئلہ میں امام ابو یوسف کے قول کے مطابق گنجائش ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ تعزیر بالمال  فقہائے کرم کے نزدیک مختلف فیہ ہے ،احناف میں سے امام ابویوسف رحمہ اللہ جواز کے قائل ہیں اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ عدم جواز کے قائل ہیں اور علامہ شامی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے اور اس  کی وجہ یہ ذکر کی ہے  کہ مالی جرمانہ  ابتدائے اسلام میں  جائز تھا بعد میں منسوخ ہوگیا اور منسوخ حکم  پر عمل جائز نہیں ،دوسری وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی انسان کا مال دوسرے انسان کے لیے اس کی طیب ِ نفس کے بغیر لینا شرعا حلال نہیں ہے اور مالی  جرمانہ  چوں کہ جبراً لیا جاتا ہے جس میں دینے والے کی طرف سے طیب ِ نفس نہیں پایا جاتا ،لہذا مذکورہ حدیث کی رو سے بھی اس کی اجازت نہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ مالی جرمانہ کو جائز رکھنے میں ظالموں کے لیے ظلماً مال لینے کا دروازہ کھل جائے گا جس کی شریعت میں قطعا ً اجازت نہیں ہے ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں بکر کا موقف درست ہے کہ   اسکول میں غیر حاضری کرنے پر پچاس روپے جرمانہ لینا  کسی بھی صورت میں شرعاً جائز نہیں ،جن طلبہ سے مالی جرمانہ لیا گیا ہو، وہ ان کو واپس کرنا یا ان پیسوں کو بالغ طلبہ سے بذاتِ خود اور نابالغ طلبہ کے سرپرستوں سے معاف کرانا ضروری ہے، اور جب تک طلبہ کو ان کے پیسے نہ دئیے جائیں، یا ان سے مذکورہ طریقے پر معاف نہ کرائے جائیں، اس وقت تک ان پیسوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في التعزير بأخذ المال

(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ".

(کتاب الحدود ،باب التعزیر،ج:4،ص:61،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں