بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول میں غیر حاضری پر طلبہ سے جرمانہ لے کر اسٹاف کا خود استعمال کرنے کا حکم/ محکمہ بہبود آبادی میں ملازمت کاحکم


سوال

میں نجی پرائیوٹ سکول کا ٹیچر ہوں، دیر سے آنے والے اور سکول سے غیر حاضر رہنے والے بچوں سےا سٹاف کی طرف سے جرمانہ مقرر ہے، یہ جرمانہ لینا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر جائز ہے تو اس کا مصرف کیاہے؟سکول مالک نے ایک استاد کی ڈیوٹی  جرمانہ جمع کرنے کے لیے اس شرط پر لگائی ہے کہ آدھی رقم جرمانہ کی استاد لے لے، جب کہ بقیہ آدھی رقم سے (چینی، پتی وغیرہ) منگوائی جاتی ہیں جس کو سارا اسٹاف استعمال کرتے ہیں۔ آیا ایساکرنا ہمارے لیے ٹھیک ہے کہ نہیں؟ 

2۔ ( پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ) محکمہ بہبود آبادی میں ملازمت کرنا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ تعزیر بالمال  (یعنی مالی جرمانہ) شریعت میں جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں ہے کہ کسی انسان کا مال دوسرے انسان کے لیے اس کی طیب ِ نفس کے بغیر لینا شرعا حلال نہیں ہے اور مالی  جرمانہ  چوں کہ جبراً لیا جاتا ہے جس میں دینے والے کی طرف سے طیب ِ نفس نہیں پایا جاتا ،لہذا مذکورہ حدیث کی رو سے بھی اس کی اجازت نہیں، نیز مالی جرمانہ کو جائز رکھنے میں ظالموں کے لیے ظلماً مال لینے کا دروازہ کھل جائے گا جس کی شریعت میں قطعا ً اجازت نہیں ہے ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں   اسکول میں غیر حاضری کرنے پرطلبہ سےجرمانہ لینا  شرعاً جائز نہیں ،جن طلبہ سے مالی جرمانہ لیا گیا ہو، وہ ان کو واپس کرنا یا ان پیسوں کو بالغ طلبہ سے بذاتِ خود اور نابالغ طلبہ کے سرپرستوں سے معاف کرانا ضروری ہے،  ان پیسوں کو  اسٹاف کا اپنے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا اور جو رقم اب تک لی گئی ہے وہ واپس کرنا ضروری ہے۔

2۔ آج کل عالمی سطح پر فیملی پلاننگ کی جو تحریک چلائی جارہی ہے،یہ فیملی پلاننگ کا مروجہ منصوبہ   منشاءِ شریعت کے خلاف ہے، کیوں کہ ان کا نظریہ ہے کہ  فقروفاقہ اور اس خطرہ کے پیش نظر  کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا، اور یہ نظریہ شریعت کے سراسر خلاف ہے، اس لیے اس بنیاد پر  فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے،یہ قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات اور عقیدہ رزاقیت کے خلاف ہے، اس طرح تو  زمانہ جاہلیت میں لوگ رزق کی کمی کے خدشہ سے اپنی اولاد کو قتل  کرتے تھے، اورآج کی فیملی پلاننگ بھی اس تصور کی ایک مہذب تصویر ہے۔

لہذا ایسے ادارے میں کام کرنا ان کے ساتھ گناہ کے کام میں تعاون کرناہے، جوکہ جائز نہیں ہے، اس لیے ایسے ادارے میں ملازمت سے احتراز لازم ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے."

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة(عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته............... قال الطيبي..........ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه(حتي تؤدي)........ أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 137، ط: رشيدية)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة، إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

(شامي، کتاب الحدود ،باب التعزیر، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4،ص: 61، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال."

(شامي، كتاب الحدود، ‌‌باب التعزير، ج: 4، ص: 62، ط: سعید)

قرآن مجید میں ہے:

"وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ." (بني اسرآئيل، 31)

'الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ' میں ہے:

"وأما أدلة الكراهة: إن كان العزل بدون عذر؛ فلأنه وسيلة لتقليل النسل، وقطع اللذة عن الموطوءة إذ قد حث النبي صلى الله عليه وسلم على تعاطي أسباب الولد فقال: تناكحوا تكثروا وقال: تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم والعذر في العزل يتحقق في الأمور التالية:

1۔ إذا كانت الموطوءة في دار الحرب وتخشى على الولد الكفر.

2۔  إذا كانت أمة ويخشى الرق على ولده.

3۔  إذا كانت المرأة يمرضها الحمل أو يزيد في مرضها.

4۔  إذا خشي على الرضيع من الضعف.

5۔ إذا فسد الزمان وخشي فساد ذريته."

(‌‌عزل، العزل عن الزوجة الحرة، ج: 30، ص: 82، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں