بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول میں پڑھانے کا حکم


سوال

میں درس نظامی کا ایک فارغ ہوں ۔ میرے لیے زمانہ حال  کے اسکول میں کام کرنا کیسا ہے۔ جس میں نورانی قاعدہ، ضروری مسئلہ مسائل، ناظرہ قرآن، اور نماز کی عملی مشق سکھائی جاتی ہے ۔

جواب

نورانی قاعدہ ،ناظرہ قرآن ، ضروری مسائل  اور دیگر دینی مضامین اسکول کے بنسبت  مدرسہ میں پڑھانا زیادہ بہتر ہے،باقی اگر  کسی اسکول میں مخلوط تعلیمی نظام نہیں ہے  بلکہ صرف لڑکوں کو پڑھایا جاتا ہے یا چھوٹے بچے ہیں، تو ایسے اسکول میں بھی پڑھانے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجوز الاستئجار على ‌تعليم اللغة والأدب بالإجماع. كذا في السراج الوهاج.

ومشايخ بلخ جوزوا الاستئجار على ‌تعليم القرآن إذا ضرب لذلك مدة وأفتوا بوجوب المسمى وعند عدم الاستئجار أصلا أو عند الاستئجار بدون المدة أفتوا بوجوب أجر المثل. كذا في المحيط

وقد استحسنوا جبر والد الصبي على المبرة المرسومة وكان الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل يقول يجبر المستأجر على دفع الأجرة ويحبس بها قال: وبه يفتى وكذا جواز الاستئجار على ‌تعليم الفقه ونحوه والمختار للفتوى في زماننا قول هؤلاء. كذا في الفتاوى العتابية.

ولو استأجر لتعليم ولده الكتابة أو النجوم أو الطب أو التعبير جاز بالاتفاق وفي فتاوى الفضلي ولو استأجر المعلم على حفظ الصبيان أو ‌تعليم الخط أو الهجاء جاز."

(کتاب الاجارۃ،الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة،ج4،ص448،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101884

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں