بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سکول میں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

میں گورنمنٹ سکول میں استاد ہوں ہمارے سکول کی چھٹی 2:15 بجے پہ ہوتی ہے، ہم وقفے کے دوران سکول میں سب استاد، طلبہ با جماعت نماز پڑھتے ہیں، جس کی محکمے کی طرف سے باقاعدہ اجازت ہے، اب ماہ رمضان میں ہمارے سکول کی چھٹی کا وقت 12:15بجے  کر دیا گیا ہے، جبکہ ہم کچھ اساتذہ اور کچھ طلبہ چھٹی کے بعد انتظار کرتے ہیں اور 12:40 پہ ظہر کا وقت ہونے پہ ظہر کی نماز سکول میں باجماعت ادا کرتے ہیں، مقامی مساجد میں نماز 2 بجے ہے۔ کیا ہمارا ایسا کرنا درست ہے یا ہمیں مقامی مساجد میں نماز ادا کرنی چاہیے؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں آپ کو مسجد جاکر ہی جماعت سے نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر جماعت نہ ملنے یا تاخیر ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر اسکول میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بھی جائز ہے، لیکن اس کی مستقل عادت نہ بنائی جائے، اس لیے اساتذۂ کرام کو کوشش کرنی چاہیے کہ مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی اجازت مل جائے اور جب تک اجازت نہ ملے سکول میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی لیکن مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے برابر ثواب نہیں ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(قوله: وتكرار الجماعة) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة» ولو لم ‌يكره ‌تكرار ‌الجماعة في المسجد لصلى فيه. وروي عن أنس " أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى "ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة يتعجلون فتكثر وإلا تأخروا."

(‌‌كتاب الصلاة، باب الاذان، ج1، ص395، ط: ایچ ایم سعید)

وفيه أيضا:

"لا يقال: يمكنه أن يجمع بأهله في بيته: فلا يلزم شيء من المحذورين؛ لأنا نقول: إن مذهب الإمام الحلواني أنه بذلك لا ينال ثواب الجماعة وأنه يكون بدعة ومكروها بلا عذر، نعم قد علمت أن الصحيح أنه لا ‌يكره ‌تكرار ‌الجماعة إذا لم تكن على الهيئة الأولى وسيأتي في الإمامة أن الأصح أنه لو جمع بأهله لا يكره وينال فضيلة الجماعة لكن جماعة المسجد أفضل، فاغتنم هذا التحرير الفريد."

(‌‌كتاب الصلاة، باب الأذان، ج1، ص 396، ط: ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں