بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول کے اساتذہ کا ملازمت کے وقت میں جماعت کےساتھ نماز پڑھنا


سوال

1- میں ایک اسکول کا استاد ہوں، اسکول چھٹی 35: 1 پر ہے، اگر ہم تمام اساتذہ 30: 1 پر نمازِ ظہر اسکول میں باجماعت ادا کریں تو کیا یہ ٹھیک ہے کہ نہیں؟

2- میرا ایک دوست ہے وہ اسکول کے وقت یعنی 30: 1 پر سکول میں باجماعت نماز چھوڑ کر بعد میں اکیلا نماز پر ھتا  ہے تو کیا یہ ٹھیک ہے کہ نہیں؟

جواب

1، 2- اساتذہ  کی حیثیت چوں کہ اجیر خاص کی ہے، ان کا وقت کام کی جگہ کے لیے خاص ہوتا ہے؛ اس لیے ڈیوٹی ٹائم میں اگر مذکورہ اسکول   کی انتظامیہ کی جانب سے اساتذہ کو باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت ہو تو اس صورت میں ان کے لیے 1:30 پر  یا اس سے پہلے جب مناسب سمجھیں، اس وقت نماز پڑھنے کی اجازت ہے، اور اس صورت میں آپ کو دوست کو بھی سب لوگوں کے ساتھ ہی جماعت سے نماز  پڑھنی چاہیے۔

اور اگر  اسکول  انتظامیہ کی  طرف سے اساتذہ کو ڈیوٹی کے ٹائم کے دوران نماز پڑھنے کی اجازت نہ ہو، لیکن چھٹی کے بعد بھی ظہر کا اتنا وقت باقی ہو کہ ظہر کی نماز بلاکراہت ادا کی جاسکتی ہے، جیساکہ آپ کے ہاں ہے (1:35 پر ڈیوٹی ٹائم ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد بھی ظہر کی نماز باجماعت ادا کی جاسکتی ہے) تو  اس صورت میں اساتذہ کو چاہیے کہ ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے کے بعد جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیں، اس صورت میں آپ کے دوست کا 01:35 کے بعد نماز ادا کرنا درست ہوگا۔

البتہ اگر اسکول کی اپنی مسجدہو، جس میں پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور وہاں ظہر  کی نماز 1:30 پر ہو تو اسکول انتظامیہ  کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز  میں شرکت کی اجازت دے اور اگر انتظامیہ اجازت نہ دے تو پھر بھی اس میں شرکت جائز ہے، بلکہ اس میں شرکت کرنی چاہیے۔

’’شرح المجلہ لسلیم رستم باز ‘‘ میں ہے:

’’الأجیر علیٰ قسمین: الأوّل الأجیر الخاص وهو الذی استوجر علیٰ أن یعمل للمستأجر فقط، کالخادم مشاهرةً عملاً موقتاً بمدة معلومة…‘‘.

(کتاب الإجارة،الباب الاول، رقم المادة:۴۲۲،ج:۱،ص:۲۳۶،مکتبه حنفیه) 

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى." (رد المحتار6/ 70)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں