بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول کا یونیفارم پینٹ شرٹ ہونا اور اس میں ٹائی لگانے کا حکم


سوال

 میرا بیٹا اسکول میں پڑھتا ہے، اس اسکول میں پہلے یونیفارم شلوار قمیض تھی،  اب تبدیل کر کے پینٹ شرٹ اور ٹائی کردی ہے،  کیا شرعی رو سے  یہ یونیفارم صحیح ہے ؟ اسکول کی انتظامیہ نے مجھ سے  کہا ہے کہ اگر آپ کسی مفتی سے فتویٰ لےکر آجائیں  تو  ہم پورے اسکول میں ٹائی پینٹ شرٹ یونیفارم ختم کردیں گے۔  برائے مہربانی شرعی رو سے راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں پینٹ شرٹ  صالحین کا لباس نہیں ہے،  اس لیے پینٹ شرٹ کا پہننا  ناپسندیدہ ہے، حتی الامکان اس لباس سے پرہیز کرنا چاہیے، اور اگر پینٹ شرٹ اس قدر چست ہو کہ اس سے جسم کی ساخت کا علم ہوتا ہو تو س کا پہننا ناجائز ہے۔

اسی طرح   ٹائی کا استعمال، صلحاء اور سلفِ صالحین کے لباس کا حصہ نہیں، بلکہ غیر مسلموں ، فجار اور فساق کے لباس کا حصہ ہے،  اور جس لباس میں غیر مسلموں کی مشابہت نظر آتی ہو اسے پہننا مکروہ ہے، کئی احادیثِ نبویہ سے ثابت ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: .... من تشبه بقوم فهو منهم."

(المسند الجامع، (الجھاد)، 10/716 ،رقم الحدیث؛8127،  دار الجیل، بیروت)

ترجمہ : حضورﷺ کا ارشاد ہے؛  جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی  تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:  

"إن هذه من ثیاب الکفار فلاتلبسها".

(مسلم،باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،جلد : 3  ص:1648ط؛ داراحیاء التراث)

یعنی یہ کافروں کے(جیسے)  کپڑے ہیں، پس ان کو نہ پہننا۔

لہٰذا  اسکول  انتظامیہ کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پربھی توجہ دیں اور تربیت میں ان کے لباس اور وضع وقطع بھی اہم چیز ہے، لہذا انتظامیہ کو   چاہیے کہ   وہ اسکول کا یونیفارم قمیض ، شلوار ہی برقرار رکھیں اور  یونیفارم میں ٹائی کی  پابندی کو بھی ختم کردیں،  انتظامیہ کی بچوں کو اچھی تربیت ان کی نجات کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، جب کہ غلط تربیت وبال کا باعث  بن سکتی ہےاور  اگر  اسکول انتظامیہ  اس پر تیار نہ ہوں  تو  سائل کو چاہیے ک وہ اپنے بچے کی دینی تربیت اور ذہن سازی کے بڑے مقصد کے پیش نظر اپنے بیٹے کو کسی اور اسکول میں داخل کرادے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لايصف ما تحته) بأن لايرى منه لون البشرة احترازاً عن الرقيق ونحو الزجاج (قوله: ولايضر التصاقه) أي بالألية مثلاً، (وقوله: وتشكله) من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظًا لايرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئياً فينبغي أن لايمنع جواز الصلاة؛ لحصول الستر. اهـ. قال ط: وانظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقاً أو حيث وجدت الشهوة؟ اهـ. قلت: سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر، والذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول".

 ( مطلب في ستر العورة کتاب الصلاة، جلد 1 ص:410، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا لايحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها فيحمل ما مر على ما إذا لم يصف حجمها، فليتأمل".

(فصل في النظر والمس، کتاب الحظر والإباحة، جلد 6 ص: 366، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں