بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول کے اوقات میں استاد کا موبائل استعمال کرنا


سوال

اگر کام ختم ہو چکا ہو تو اسکول ٹائم میں موبائل چلانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟  

جواب

واضح رہے کہ دفتری  اوقات  ملازم  کے پاس امانت ہوتے ہیں اور ان اوقات کی  پابندی  کے  ساتھ   ساتھ  اس دوران  ملازم کو اپنا کوئی ذاتی کام کرنے  کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

اسکول کے اساتذہ کو مقررہ اوقات میں اسکول میں حاضررہنا ضروری ہوتا ہے، اور اس دورانیہ میں استاد صرف اسکول سے متعلق کام، مطالعہ، اسباق کی تیاری وغیرہ کرے؛ تاکہ بچوں کےتعلیمی  حقوق صحیح طور پر ادا ہوں، اس میں حق تلفی یا کوتاہی نہ ہو، استاد کو ذاتی مشغولیات میں وقت صَرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اگر کوئی استاذ اوقاتِ ملازمت میں موبائل استعمال کرنا چاہتا ہو اور وہ اپنے اسباق پڑھا چکا ہو، وقت بھی ایسا ہو  جس وقت میں موبائل استعمال کرنے سے بچو ں کی تعلیم متاثر نہ ہوتی ہو، اور نہ اپنا کوئی مفوضہ کام متاثر ہوتا ہو  اور ہیڈماسٹر سے صراحۃً یا کنایۃً اجازت بھی ہو، تو اس کی گنجائش ہے۔ 

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، جلد:9، صفحہ:140، طبع: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

( كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، جلد:6، صفحہ: 70،  طبع: دار الفكر )

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"اس وقتِ معین میں فرض نماز کے سوا کوئی دوسرا کام جائز نہیں، بعض نے سننِ مؤکدہ کی بھی اجازت دی ہے، نوافل پڑھنا بالاتفاق جائز نہیں، البتہ دفتر میں حاضر رہ کر کوئی ایسا کام کرنے کی گنجائش ہے جس کو بوقتِ ضرورت چھوڑ کر سرکاری کام بسہولت ممکن ہو۔"

(کتاب الاجارہ، جلد:7، صفحہ: 301، طبع: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں