بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول بناکر منافع کمانے سے متعلق متفرق احکام


سوال

 آج سے تقریبا سات سال پہلے ہم گھر کے  سات افراد جن میں 6 بھائی اور ایک بہن شامل ہیں، نے آپس میں مشاورت سے ایک اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا، اور آپس میں اپنے اپنے حصے کی رقم بھی ملائی ،کسی کے پانچ لاکھ، کسی کے دس لاکھ اور کسی کے بیس لاکھ شامل تھے۔اب ان میں سے چار افراد اسکول کو چلا رہے ہیں ، جبکہ دو بھائی اور ایک بہن کی صرف انویسمنٹ ہے، وہ اس اسکول میں کام وغیرہ نہیں کرتے ہیں ، مذکورہ چار افراد جو اسکول چلا رہے ہیں ان کو تنخواہ کی مد میں رقم ادا کی جاتی ہے اور باقی تمام سات افراد کو منافع میں سے دو فیصد کے حساب سے رقم بھی ادا کی جاتی ہے ، قرآن وحدیث اور شریعت کی رو سے مذکورہ سوالوں کا جواب عنایت فرمادیں:

1: ہمیں اسکول سے جو منافع حاصل ہوتا ہے اس کو آپس میں کس طرح تقسیم کیا جائے؟

2: جو چارافراداسکول چلارہے ہیں اور ان کی انویسمنٹ بھی لگی ہوئی ہے ، ان کومنافع کس طرح دیا جاۓ ؟

3: بقیہ جوتین افراد  ہیں جن کی صرف اور صرف انویسمنٹ شامل ہے،اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،ان تین افرادکوکس طرح منافع دیا جاۓ ؟

4: اسکول سے سالانہ کورس ( کتا بیں، کاپیاں وغیر ہ)بھی سیل آؤٹ(فروخت) کی جاتی ہیں ، اس کا منافع کس طرح ہم سات افراد میں تقسیم کیا جاۓ ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بہن بھائیوں نے باہمی رضامندی سے مختلف تناسب سے رقم شامل کرکے جواسکول کھولا ہے،اس شراکت داری میں چونکہ شرکاء کے سرمایہ کی مالیت الگ الگ ہے،اور چار بھائی مذکورہ اسکول کو چلارہے ہیں،جبکہ دیگر کا فقط سرمایہ شامل ہے،اس تفصیل کی روشنی میں نفع نقصان کی تقسیم کے حوالہ سے مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:

1:مذکورہ شراکت   نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر ہو،اور نفع کی تعیین فیصد/حصص کے اعتبار سے کی جائے گی،یعنی یاتو سرمایہ کےبقدر نفع تقسیم کیاجائے،یاپھر تمام بہن بھائی باہمی رضامندی سے نفع میں شرح فیصد کے اعتبار جو مقرر کریں،اسی حساب سے تقسیم کیاجائے،اسی طرح نقصان میں بھی تمام شرکاء کاشریک ہوناشرکت کے جواز کے لیے شرط ہے، البتہ نقصان کی صورت میں مذکورہ بہن بھائیوں میں سےہر ایک اپنےاپنے سرمائے کے تناسب سےہی نقصان برداشت کرے گا۔

2-3:مذکوہ معاملہ میں چونکہ چار بھائی اسکول چلارہے ہیں،اور دیگر تین افرادکا فقط سرمایہ شامل ہے، اسکول میں کام کرنے والے مذکورہ چارافراد کی تنخواہ متعین کرکے دیناجائز نہیں ہے،کیونکہ  شراکت داری  کے معاملہ میں کسی شریک کا بطور ِملازم(اجیر)اجرت   اصول کرنا جائز نہیں ہے،لہذا اسکول چلانے والےمذکورہ افراد کے  لیے نفع کی شرح کام نہ کرنے والے دیگر تین افراد کے مقابلہ میں بڑھاکر دی جائےتو جائز ہے،نیز کام نہ کرنے والے تین افراد کو نفع زیادہ سے زیادہ ان کے سرمایہ کے تناسب سے دیا جاسکتاہے،کیونکہ شراکت داری میں  جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ۔

4:مذکورہ اسکول سے جو سالانہ کورس فروخت کیا جاتا ہے،اگر اس کی خرید و فروخت میں وہی رقم استعمال کی گئی ہوجواسکول بناتے وقت ابتداء میں تمام شرکاء نےجمع کی تھی،تو کتابوں کی فروخت پر ہونے والا نفع بھی مذکورہ بالا تناسب سے تقسیم کیا جائےگا، لیکن اگر یہ سالانہ کورس مذکورہ سرمایہ سے خرید کر فروخت نہیں کیاجاتا ،بلکہ کوئی بھی فرد اپنے ذاتی پیسوں سے کورس خرید کر فروخت کرتا ہو،تو اس صورت میں وہی مکمل نفع کا حق دار کہلائےگا۔ 

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة والمفاوضة فيها فتضمنت معنى الوكالة دون الكفالة حتى تجوز هذه الشركة بين كل من كان من أهل التجارة، كذا في محيط السرخسي. فتجوز هذه الشركة بين الرجال والنساء والبالغ والصبي المأذون والحر والعبد المأذون في التجارة والمسلم والكافر، كذا في فتاوى قاضي خان...

وأما شرط جوازها فكون رأس المال عينا حاضرا أو غائبا عن مجلس العقد لكن مشارا إليه، والمساواة في رأس المال ليست بشرط ويجوز التفاضل في الربح مع تساويهما في رأس المال، كذا في محيط السرخسي...

لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله لم يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله، كذا في السراجية. ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة، وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما."

(كتاب الشركة،الباب الثالث، ج:2:،ص:320،ط:دارالفكر)

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". 

(كتاب الشركة، شركة العنان، ج:5، ص:188، ط:دارالكتاب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضاً على الشرط، ويكون مال الدافع عند العامل مضاربةً، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لايصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعةً لكل واحد منهما ربح ماله".  

(کتاب الشركة، مطلب فی شركة العنان، ج:4، ص:312، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311102203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں