بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولی کی رضامندی سے سیدہ لڑکی کا غیر سید لڑکے سے نکاح


سوال

میں اپنی سید بیٹی کی شادی ایک غیر سید لڑکے سے کروانا چاہتا ہوں، کیا یہ شرعاً درست ہے؟ ہم والدین اس رشتے پر رضامند ہیں۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  سید لڑکی غیر سید لڑکی غیر سید لڑکے کے لئے کفو تو نہیں ، لیکن جب سائل اور اس کی بیوی اپنی سیدہ بیٹی کا نکاح مذکورہ غیر سید لڑکے سے کرنا چاہتے ہیں اور لڑکی بھی رضامند ہےتو ایسا نکاح شرعاً درست ہو گا، اس لئے کہ  اس پر اعتراض کرنے ور رکاوٹ ڈالنے  کا حق والد کو تھا اور جب والد خود رضامند ہے تو اس لئے نکاح بھی ہوسکتا ہے۔

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح ....... الكفاءة تعتبر في أشياء (منها النسب) فقريش بعضهم أكفاء لبعض كيف كانوا حتى أن القرشي الذي ليس بهاشمي يكون كفئا للهاشمي وغير القرشي من العرب لا يكون كفئا للقرشي والعرب بعضهم أكفاء لبعض الأنصاري والمهاجري فيه سواء، كذا في فتاوى قاضي خان ....... وإذا زوجت نفسها من غير كفء ورضي به أحد الأولياء لم يكن لهذا الولي ولا لمن مثله أو دونه في الولاية حق الفسخ ويكون ذلك لمن فوقه، كذا في فتاوى قاضي خان وكذا إذا زوجها أحد الأولياء برضاها، كذا في المحيط۔"

(کتاب النکاح، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح، 1/290/ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں