بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سید مجبوری کی حالت میں زکوۃ لے سکتا ہے؟


سوال

 میرے والد صاحب تین سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں ,ہم ڈھائی سال تک 21 ہزار روپیہ فی مہینہ ان کو کینسر کی دوائی کھلاتے رہے ہیں، مگر اب یکم جولائی سے ڈاکٹر نے کینسر والی 21000کی جو دوائی تھی وہ تبدیل کر کے  ایک لاکھ پانچ ہزار والی دوائی لکھ دی ہے،مگر میری استطاعت سے یہ دوائی باہر ہے ،جب کہ میری 31 ہزار تنخواہ ہے , اور مکان کا کرایا چودہ ہزار ہے، میری بیوی کی تنخواہ 28 ہزار ہے اور میری والدہ کی پینشن 28 ہزار ہے۔جو کہ کل رقم 87000بنتی ہے۔جب کہ دوائی کی ماہانہ قیمت 105000ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ذات سید ہے۔ کیا ہم زکوۃکے پیسوں سے دوالے سکتے ہیں؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات  (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔

 «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد». (صحيح مسلم (2/ 754)

                        لہذا صورتِ مسئولہ میں سید  کو زکاۃلیناجائز نہیں ہے، اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں  اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے ، اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید  ہے۔صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے:  "ارقبوا محمداً في أهل بيته".  یعنی رسولِ اقدس ﷺ کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم ﷺ کے حق کی حفاظت کرو۔ اگر صاحبِ نصاب کی اپنی گنجائش نہ ہو کہ وہ ضرورت مند سید کی زکات کے علاوہ حلال مال سے امداد کرسکے اور اس سے خود کوئی صورت نہ بن سکے تو  دردِ دل رکھنے والے  اصحابِ خیر کو اس نیک کام کی طرف متوجہ کردے کہ وہ سید کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کی ضرورت پوری کردیں۔

الحمدللہ اس دورِ انحطاط میں بھی بعض ادارے  اور ہسپتال مالیاتی مدات کا لحاظ رکھ کر سادات وغیرہ کا علاج اور معاونت عطیات اور نفلی صدقات سے کرتے ہیں، سخت مجبوری میں ایسے اداروں سے تعاون لینے میں حرج نہیں۔

بالفرض زکات کے علاوہ کسی مد سے تعاون کی کوئی صورت نہ بنے تو آخری درجے میں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ کسی غیر سید فقیر مسکین کو زکات کی رقم مالک بناکر دے دی جائے اور  مذکورہ مصرف بتادیا جائے، اگر وہ اپنی دلی رضامندی سے بغیر کسی دباؤ کے آپ کے والد کے علاج کے لیے رقم دے دیتا ہے  تو آپ کے لیے اس سے رقم لے کر والد صاحب کا علاج کرنا جائز ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144111200971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں