بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا لڑکی کا نکاح غیر سید لڑکے سے کروانے کا حکم


سوال

کیاسید لڑکی کا نکاح غیرسید لڑکے سےکرسکتے ہیں؟ اس میں شرعًاکوئی  قباحت ہے؟اگر لڑکا عالمِ  دین ہواورباعمل ہو تو کیا صرف  خاندان والوں کےطعنوں سے بچنے کے  لیے سید لڑکی کا نکاح غیر سید لڑکے سے نہ کروانا  درست ہے کہ خاندان والےکیابولیں گے؟

جواب

سیدہ لڑکی کا نکاح اپنے ولی کی اجازت سے غیر سید مسلمان  لڑکے سے جائز ہے۔ اسی طرح اگرعاقلہ وبالغہ سیدہ لڑکی  اپنے ولی کی اجازت کےبغیر غیر سید لڑکے سے نکاح کرے تو  بھی  نکاح منعقد ہوجائےگا، (گو ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کا از خود نکاح کرنا شرعًا و اخلاقًا و عرفًا معیوب و ناپسندیدہ ہے)، لیکن  اگر لڑکا  اس لڑکی کا کفو نہ ہو  (یعنی قریش کے علاوہ دیگر عرب قبیلہ کا یا عجمی قوم میں سے ہو)  اور  ولی کو اس پر اعتراض ہو تو اولاد  ہونے سے پہلے ولی بذریعۂ عدالت اس نکاح کو ختم کروا سکتا ہے۔

سید لڑکی کا نکاح غیر سید لڑکے سے کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر لڑکی کے جوڑ کا دین دار اور  باعمل لڑکے کا رشتہ مل رہا ہو تو محض خاندان والوں کی باتوں کی وجہ سے ایسے رشتہ سے انکار نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا، ایک نماز جب اس کا وقت ہوجائے اور  جنازہ کی نماز جب وہ (جنازہ) تیار ہوجائے اور کنواری (بے نکاحی) عورت (کا نکاح) جب اس کے جوڑ کا خاوند مل جائے یعنی جوڑ کا لڑکا ملتے ہی فورا نکاح کردینا  چاہیے۔ ایک اور حدیث میں لڑکی کے اولیاء کو خطاب ہے: "جب تمہیں ایسا شخص پیغامِ نکاح بھیجے جس کی دین داری اور اَخلاق تمہیں پسند ہوں تو (فورًا) نکاح کردو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد ہوجائے گا۔"

سنن الترمذي ت بشار (1/ 238):

"حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا علي، ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئاً".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 86):

"(وتعتبر) الكفاءة للزوم النكاح خلافًا لمالك (نسبًا فقريش) بعضهم (أكفاء) بعض (و) بقية (العرب) بعضهم (أكفاء) بعض.

(قوله: فقريش إلخ) القرشيان من جمعهما أب هو النضر بن كنانة فمن دونه، ومن لم ينتسب إلا لأب فوقه فهو غير قرشي والنضر هو الجد الثاني عشر للنبي صلى الله عليه وسلم فإنه محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان، على هذا اقتصر البخاري والخلفاء الأربعة كلهم من قريش وتمامه في البحر. (قوله: بعضهم أكفاء بعض) أشار به إلى أنه لا تفاضل فيما بينهم من الهاشمي والنوفلي والتيمي والعدوي وغيرهم، ولهذا زوج علي وهو هاشمي أم كلثوم بنت فاطمة لعمر وهو عدوي قهستاني فلو تزوجت هاشمية قرشيا غير هاشمي لم يرد عقدها وإن تزوجت عربيا غير قرشي لهم رده كتزويج العربية أعجميا بحر وقوله لم يرد عقدها ذكر مثله في التبيين، وكثير من شروح الكنز والهداية، وغالب المعتبرات فقوله في الفيض القرشي لا يكون كفؤا للهاشمي كلمة لا فيه من تحريف النساخ، رملي.

(قوله: وبقية العرب أكفاء) العرب صنفان: عرب عاربة: وهم أولاد قحطان ومستعربة: وهم أولاد إسماعيل والعجم أولاد فروخ أخي إسماعيل، وهم الموالي والعتقاء والمراد بهم غير العرب وإن لم يمسهم رق سموا بذلك إما لأن العرب لما افتتحت بلادهم وتركتهم أحرارا بعد أن كان لهؤلاء الاسترقاق، فكأنهم أعتقوهم، أو لأنهم نصروا العرب على قتل الكفار والناصر يسمى مولى، نهر." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں