بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا زکاۃ لینا


سوال

پہلے زمانہ میں سید کو وظیفہ ملتا تھا، آج کل وظیفہ نہیں ہے تو کیا وہ زکاۃ لے سکتے ہیں؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات  (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔

 «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد».  (صحيح مسلم (2/ 754)

لہذا سید کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے،  اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکاۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں  اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»".  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں