بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سید امام کو صدقہ فطر اور قربانی کی کھال دینا


سوال

ہمارے گاؤں کا امام صاحب جو کہ سید گھرانے سے تعلق رکھتا ہے وہ آج سے چالیس سال سے ہمارے گاؤں کی مسجد کی امامت کروا رہے ہیں، اس زمانے سے امام صاحب کی کوئی تنخواہ مقرر نہیں ہے، لوگ اپنی قربانی کی کھالیں اور سالانہ صدقہ فطر ان امام صاحب کودیتے ہیں تو کیا یہ کھالیں اور صدقہ فطر امام صاحب کو دینا  جائز ہے؟ کیوں کہ گاؤں والے تنخواہ نہیں دیتے، حالاں کہ گاؤں میں امیر لوگ بھی ہیں اور غریب بھی۔

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات  (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سید امام  کو زکوۃ اور فطرہ دیناجائز نہیں ہے، اہلِ محلہ پر لازم ہے کہ ان کی تنخواہ مقرر کریں، نیز اگر وہ غریب اور محتاج ہیں تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ ان کی امداد زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ دیگر رقوم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں  اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی دلیل ہے ، اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت کی قوی امید  ہے۔صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے:  "ارقبوا محمداً في أهل بيته".  یعنی رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی حفاظت کرو۔

پھر قربانی کے جانور کی کھال جب تک  فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین طرح کے اختیارات حاصل ہیں:

1۔ قربانی کرنے والا خود اس کھال کو اپنے استعمال میں لائے۔

2۔ کسی کو ہدیہ کے طور پر دے دے۔

3۔ فقراء اور مساکین پر صدقہ کردے۔

تاہم اگر قربانی کی کھال نقد رقم یا کسی چیز کے عوض فروخت کردی گئی تو اس کی قیمت  صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ کا مصرف ہے۔

لہذا اگر مذکورہ امام کو کھال تحفۃً  دی جائے تو یہ جائز ہے اور اگر فروخت کر کے اس کی رقم دی جائے تو یہ جائز نہیں، اسی طرح امامت کے عوض میں اجرت کے طور پر دے تو یہ بھی جائز نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»".

(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ، 265/2/دار الکتاب الاسلامی)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"(ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب) وقربة وسفرة ودلو (أو يبدله بما ينتفع به باقياً) كما مر (لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه) كدراهم، (فإن) (بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدراهم) (تصدق بثمنه)."

(6/328، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں