بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سید علی شاہ نام رکھنا


سوال

"سید علی شاہ"  نام رکھنا کیسا ہے، اور  اس  کے  معنی کیا ہیں؟ نیز راہ نمائی فرمائیں کہ کیا یہ اسلامی نام ہے؟

جواب

واضح رہے کہ    اصطلاحی و عرفی اعتبار سے ہر کسی کو ’’سید‘‘  کہنا درست نہیں ہے۔  ابتدائی عہد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ان کی نسل کو ’’سید‘‘  کہا جاتا تھا،  لیکن بعد میں یہ اصطلاح خاص ہوگئی،  چناں چہ  ہمارے عرف میں ’’سید‘‘  صرف وہ گھرانے  ہیں  جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب  ’’سید‘‘ ہے، اور یہ  ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛  اس لیے صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل  سے آنے والے گھرانوں کو  ’’سید‘‘ کہنا چاہیے۔

لہذا بصورتِ  مسئولہ سید  کا لفظ جس کے  نام کے ساتھ لگایا جارہا ہے اگر وہ حسنین رضی اللہ  عنہما میں سے کسی کی اولاد میں سے ہے تب تو درست ہے اور اس صورت میں پھر "سید علی شاہ"  نام رکھ سکتے ہیں  ،  لیکن اگر وہ ان کی اولاد میں سے نہیں تو صرف ''علی ''یا ''محمد علی ''نام رکھنا چاہیے۔

"شاہ"  کا لفظ بھی عام طور  پر  ہمارے  عرف  میں  وہ لوگ لگاتے ہیں جو نسب کے اعتبار سے سید ہوں، اب اگر کوئی شخص سادات میں سے نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو سید ظاہر کرنے کے لیے یہ لفظ اپنے نام کے ساتھ لگاتا ہے، یا اپنے بچے کے نام کے ساتھ لگاتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2170):

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لاترغبوا) : أي: لاتعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه) : أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر) : أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر. في النهاية: الدعوة بالكسر في النسب، وهو أن ينتسب الإنسان إلى غير أبيه وعشيرته، وكانوا يفعلونه فنهوا عنه، والادعاء إلى غير الأب مع العلم به حرام، فمن اعتقد إباحته كفر لمخالفة الإجماع، ومن لم يعتقد إباحته فمعنى (كفر) : وجهان، أحدهما: أنه أشبه فعله فعل الكفار، والثاني: أنه كافر نعمة الإسلام. قال الطيبي: ومعنى قوله: فالجنة عليه حرام على الأول ظاهر، وعلى الثاني تغليظ (متفق عليه) . ولفظ ابن الهمام: " «من ادعى أبا في الإسلام غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» ) : وأما لفظ الكتاب فمطابق لما في الجامع الصغير."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں