بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ثیبہ لڑکی اگر سر کے اشارے سے نکاح کی اجازت دے اور زبان سے کچھ نہ کہے تو اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

زید اور ثانیہ (مثال کے طور پر میاں بیوی ہے) تجدید نکاح کرا رہے ہیں۔ اگر سسر  ثانیہ  کا وکیل بنے اور ثانیہ سے اجازت لےتو ثانیہ کااجازت دینے کے لیے  سر کے ذریعے سے اشارہ کرنا کافی ہے؟ جس کا مطلب (ہاں) ہوتا ہے یا الفاظ کی تصریح ضروری ہے؟اگر شرمانے کی وجہ سے صرف سر کا اشارہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ حوالے کے ساتھ جواب دیا جائے۔

جواب

واضح رہے کہ نکاح کی اجازت لینے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر لڑکی  کنواری ہو اور وہ وکیل کی اجازت کے سوال میں خاموش رہے تو یہ اجازت ہی شمار ہو  جائے گی اور اگر (شوہر کے ساتھ حقِ زوجیت ادا کر چکا ہو)  لڑکی  ثیبہ ہے تو محض خاموش رہنا نکاح کی اجازت کے لیے کافی نہیں ہو گا،  بلکہ زبان سے اجازت دینی ضروری ہو گی،لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی (ثانیہ) اگر  ثیبہ ہے، تو  اس کااپنے وکیل(سسر) کو اجازت دینے کے لیے صرف سر کا اشارہ کرنا کافی نہیں ہے ، بلکہ زبان سے اجازت کے الفاظ کی تصریح کرنا ضروری ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌السكوت ‌بعد ‌لزوم ‌البيان يجعل دليل النفي."

(كتاب العتق، باب الاستيلاد، ج:4، ص:294، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والإيماء بالرأس) ‌من ‌الناطق (‌ليس بإقرار بمال وعتق وطلاق وبيع ونكاح وإجارة وهبة بخلاف إفتاء ونسب وإسلام وكفر) وأمان كافر وإشارة محرم لصيد والشيخ برأسه في رواية الحديث والطلاق في أنت طالق هكذا، وأشار بثلاث إشارة الأشباه ويزاد اليمين كحلفه لا يستخدم فلانا أو لا يظهر سره أو لا يدل عليه وأشار حنث عمادية فتحرر بطلان إشارة ‌الناطق إلا في تسع فليحفظ."

(كتاب الإقرار، ج:5، ص:595، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"وبه صرح في الخانية بقوله الولي إذا زوج الثيب فرضيت بقلبها ولم تظهر الرضا بلسانها كان لها أن ترد لأن المعتبر فيها الرضا باللسان أو الفعل الذي يدل على الرضا نحو التمكين. من الوطء وطلب المهر وقبول المهر دون قبول الهدية وكذا في حق الغلام."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب الولي، ج:3، ص:62، ط:سعيد)

مجمع الاَنھر میں ہے:

"(وكذا) لا بد من القول، أو ما يقوم مقامه كالتمكين من الجماع وطلب النفقة والمهر وغيرها (لو استأذن) الولي، أو غيره (الثيب) الكبيرة؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام - «الثيب تشاور» ولأن الأصل في السكوت أن يكون رضى لكونه محتملا في نفسه وإنما أقيم مقام الرضا في حق البكر لضرورة الحياء والثابت بالضرورة لا يعدو عن موضع الضرورة ولا ضرورة في الثيب؛ لأنه قل الحياء فيها بالممارسة فلا يكتفى بسكوتها عند استئذانها وحين بلوغها العقد."

(كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، ج:1، ص:334، ط:دار إحياء التراث العربي)

ملتقی الاَبحر میں ہے:

"ولا يجبر ولي بالغة ولو بكرا فإن استأذن الولي البكر فسكتت أو ضحكت أو بكت بلا صوت فهو إذن ومع الصوت رد وكذا لو زوجها فبلغها الخبر وشرط فيهما تسمية الزوج لا المهر هو الصحيح ولو استأذنها غير الولي الأقرب فلا بد من القول وكذا لو استأذن الثيب."

(كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، ص:490، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:

"سوال:اگر کسی نے نکاح میں ایجاب و قبول کے جواب میں صرف سر ہلایا تو نکاح ہوا یا نہیں ؟

الجواب:کلام پر قدرت رکھنے والا اگر صرف سر ہلادے تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا ، لہذا صورتِ مسئولہ میں بھی نکاح نہیں ہوا۔"

(کتاب النکاح، باب فی ما ینعقد بہ النکاح ومالا ینعقد ، فصل اول نکاح کے ارکان شرائط وغیرہ کا بیان، ج:3، ص:562، ط:زمزم پبلیشر کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں