بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیدہ عورت کو زکوۃ دینا جائز نہیں


سوال

ہمارے پڑوس میں ایک عمر رسیدہ بیوہ عورت ہے، اور وہ سیدہ ہے ،اس کا کوئی کمانے والا نہیں ہے، وہ خود سرکاری نوکری سے ریٹائر ہے اور پنشن لیتی ہے، ان مختصر سے پیسوں میں وہ گھر کا کرایہ نکالتی ہے، باقی گزر بسر بمشکل ہوتا ہے، تو کیا ہم اس کو اپنی زکوۃ دے سکتے ہیں؟شرعی راہ نمائی فرمائیں، میری بیوی کی اور میری چاہت ہے کہ اس کی مدد کردیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کا اور آپ کی بیوی کا مذکورہ سیدہ عورت کو زکوۃ وغیرہ دے کر اس کی مدد کرنا اور اس عورت کا زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات (زکات اور صدقاتِ واجبہ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔

تاہم اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے آپ اور آپ کی اہلیہ زکات اور صدقات واجبہ کے علاوہ رقم سے اُن کی مدد کریں تو یہ بڑا اجروثواب کا باعث  اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ اور سیدہ کے ساتھ تعاون سے آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔

صحیح مسلم شریف میں ہے:

"إن ‌هذه ‌الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد".

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب ترك استعمال آل النبي على الصدقة، ج:3، ص:119، رقم الحدیث:1072، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"«‌لا ‌يحل ‌لكم ‌أهل ‌البيت من الصدقات شيء إنما هي غسالة أيدي الناس، وإن لكم في خمس الخمس ما يغنيكم» "، وهو يوجب تحريم صدقة بعضهم على بعض، وكذا ما روى البخاري عنه - صلى الله عليه وسلم -: " «نحن أهل البيت لا تحل لنا الصدقة»".

(كتاب الزكوة، باب من لا تحل له الصدقة، ج:4، ص:1301، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

وفیہ أیضاً:

"وعن عبد المطلب بن ربيعة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «‌إن ‌هذه ‌الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد» "، رواه مسلم". 

(كتاب الزكاة، باب من لا تحل له الصدقة، ج:4، ص:1302، رقم الحديث:1823، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا ‌يدفع ‌إلى ‌بني ‌هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم - كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي، وكذا لا يدفع إلى مواليهم كذا في العيني شرح الكنز".

(كتاب الزكوة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:187، ط:رشيديه)

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم لحديث البخاري «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة» ولحديث أبي داود «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة»۔۔۔۔۔۔۔وقال المصنف في الكافي: وهذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة أما التطوع والوقف فيجوز الصرف إليهم؛ لأن المؤدي في الواجب يطهر نفسه بإسقاط الفرض فيتدنس المؤدى كالماء المستعمل، وفي النفل تبرع بما ليس عليه فلا يتدنس به المؤدى كمن تبرد بالماء اهـ".

(کتاب الزکات، باب مصرف الزکات، ج:2، ص:265، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509102171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں