بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید طلباء اور اساتذہ پر زکات کی رقم خرچ کرنا


سوال

کیا مدارس کے ذمہ داران مدارس میں پڑھنے والے سیدطلباء  اوراساتذہ پر زکات کی رقم خرچ کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سید طلباء اور اساتذہ پر زکات کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ،بلکہ صدقات ِ غیر واجبہ سے ان کی ضروریات میں صرف کیا جاۓ،البتہ اگر زکات کی رقم کے علاوہ دوسرے فنڈ کی رقم بالکل نہیں ہےتو بامر مجبوری بقدر ضرورت اس صورت میں زکات کی رقم کسی غیر سید مستحق ِ زکات  طالب علم کو دے دی جاۓ اور وہ اپنی مرضی سے وہ رقم یا اس میں سے بعض سید کو  دے دے تو ایسی صورت میں رقم سید کے استعمال میں لانا جائز ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم لحديث البخاري «‌نحن - ‌أهل ‌بيت - لا تحل لنا الصدقة»."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة، ج:2، ص:265، ط: دارالكتاب الإسلامي)

وفیہ ایضاً:

"‌والحيلة ‌في ‌الجواز في هذه الأربعة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب كذا في المحيط."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (بني هاشم) ... ثم ‌ظاهر ‌المذهب ‌إطلاق المنع."

(كتاب الزكاة، باب العشر، ج:2، ص:350، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں