بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سید طالب علم کا مدرسہ میں رہائش اختیار کرنے اور کھانے کا حکم


سوال

ایک طالب علم جو سید خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس کا مدرسہ میں رہائش رکھنا ،کھانا کھانا کیسا ہے ؟طالب علم کی مالی حیثیت کمزور ہے۔

جواب

واضح رہے کہ سیدکےلیے زکوۃاور صدقاتِ واجبہ کا استعمال حلال نہیں ہے، لہذاصورتِ مسئولہ میں سیدطالب علم جس ادارہ میں رہائش پذیرہے یاداخلہ لینے کا ارادہ رکھتاہے،اگرمذکورہ ادارہ طلبہ کے تمام اخراجات زکوۃ اورصدقاتِ واجبہ سے اٹھا تے ہیں تو اس صورت میں سید طالب علم کے لیے مذکورہ ادارہ میں رہائش اختیارکرنا،کھاناکھاناشرعاً جائزنہیں ہے ،البتہ اگر مذکوہ ادارہ والےغیر مستحق طلبہ کے اخراجات عطیہ کی مد سے اٹھاتے ہیں، تو اس صورت میں سیدطالب علم کے لیے مذکورہ ادارہ میں رہائش اختیارکرنا،کھاناکھاناشرعاًجائز ہوگا۔

الدرالمختارمیں ہے :

"(و) لا إلى (‌بني ‌هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع، وقول العيني والهاشمي: يجوز له دفع زكاته لمثله صوابه لا يجوز نهر (و) لا إلى (مواليهم) أي عتقائهم فأرقاؤهم أولى لحديث مولى القوم منهم وهل كانت تحل لسائر الأنبياء؟ خلاف واعتمد في النهر حلها لأقربائهم لا لهم (وجازت التطوعات من الصدقات و) غلة (الأوقاف لهم) أي لبني هاشم، سواء سماهم الواقف أو لا على ما هو الحق كما حققه في الفتح، لكن في السراج وغيره إن سماهم جاز، وإلا لا.

قلت: وجعله محشي الأشباه محمل القولين، ثم نقل صاحب البحر عن المبسوط وهل تحل الصدقة لسائر الأنبياء؟ قيل نعم، وهذه خصوصية لنبينا - صلى الله عليه وسلم - وقيل لا بل تحل لقرابتهم فهي خصوصية لقرابة نبينا إكراما وإظهارا لفضيلته  صلى الله عليه وسلم  فليحفظ ."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة والعشر ج : 2 ص : 359 ط : سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا يدفع إلى بني ‌هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني ‌هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي  صلى الله عليه وسلم  كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي، وكذا لا يدفع إلى مواليهم كذا في العيني شرح الكنز. ويجوز صرف خمس الركاز والمعدن إلى فقراء بني ‌هاشم كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الزكاة،الباب السابع في المصارف ج : 1 ص : 189 ط : رشيدية)

فتاوی مفتی محمود میں ہے :

"سید طالب علم کو زکوۃ،صدقات واجبہ دینا:

مدّ زکوۃ میں سے طالب علم مسافر کو دیناجائز ہےیانہیں اورنیزسادات کو زکوۃ دینے سے زکوۃ اداہوجائےگی یانہیں ؟

جواب : طالبان علم دین اس زمانہ میں بہترین مصارف زکوۃ ہیں ،بشرطیکہ وہ مالک نصاب نہ ہوں،سیدنہ ہوں اوراگروہ طلبہ نابالغ ہوں توان کے والدین صاحب نصاب اورغنی نہ ہوں ،چنانچہ فی سبیل اللہ میں فقہاء نے طالب علم کو داخل فرمایا ہےاورطلبہ ابن سبیل میں بھی داخل ہیں ، حنفیہ کے نزدیک صحیح قول کے مطابق اورظاہرالروایۃ کے مطابق سادات کو کسی حال میں زکوۃ دینادرست نہیں ۔"

(کتاب الزکوۃ ج : 3 ص : 337 ، ط : مشتاق اے پریس لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں