میں ایک جامعہ کارہائشی طالب علم ہوں اورمیراشجرۂ نسب سادات سے جاملتاہے، جامعہ میں مخیر حضرات کی طرف سےزکوۃ، صدقات، اورخیرات کی مدمیں تعاون کیاجاتا ہے، آیامیں مذکورہ بالااشیاء کامستحق ہوں یانہیں؟
سادات کو زکوٰۃ یا صدقات واجبہ دینا یا ان کے لیے لینا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’یہ صدقات (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘
لہذ ا سائل کے لیے زکوٰۃ یا صدقات واجبہ وصول کرنا جائز نہیں ہے، البتہ نفلی صدقات وعطیات وصول کرنا جائز ہے، نیزصاحبِ حیثیت مال داروں کو بھی چاہیے کہ وہ سادات کی زکات اور صدقات واجبہ کے علاوہ نفلی صدقات وعطیات وغیرہ سے امداد کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں ، یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے ۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»".
(2/ 265، باب مصرف الزكاة، ط: دارالكتاب الاسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144411102575
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن