بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سيد كا كنواں كهودنے كے لئے زكاة لينا


سوال

محترم میں کشمیر کے ایک گاؤں میں رہتا ہوں ہمارے علاقے میں پانی کی شدید کمی ہےاور ہمارے محلے میں سید بھی ہیں اعوان بھی ہیں بلوچ بھی ہیں بھٹی بھی ہیں کچھ سرکاری ملازم بھی ہیں لیکن اکثریت محنت ، مزدوری کرنے والوں کی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ میں کسی سے اپنے علاقے میں بورنگ یا موٹر وغیرہ لگا کر پانی کا مسئلہ حل کرنے  کے لیے زکٰوۃ کی رقم لے سکتا ہوں ؟اور یہ کہ میں سید ہوں یا اس دوسری کیا صورت ہو سکتی ہے؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات  (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

" «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد»."

(مشكاة المصابيح،كتاب الزكاة ،باب من لا تحل له الصدقة  (ص:161)ط:قديمي كراچي)

لھذا صورت مسئولہ میں آپ کے لئے زکاۃ کی رقم لینا شرعا ناجائز ہے ،پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ زکاۃ کی مد کے علاوہ صدقات وغیرہ سے تعاون کی درخواست کی جائے ،بالفرض زکات کے علاوہ کسی مد سے تعاون کی کوئی صورت نہ بنے تو آخری درجے میں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ کسی غیر سید فقیر مسکین کو زکات کی رقم مالک بناکر دے دی جائے اور  بعد میں مذکورہ مصرف بتادیا جائے، اگر وہ اپنی دلی رضامندی سے بغیر کسی دباؤ کے اس  مصرف میں لگادے تو شرعا جائز ہوگا۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں