بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے تنخواہ دار ملازم کا اپنے لیے کمیشن رکھنے کا حکم


سوال

میں ایک پیسٹی سائیڈ (سپرے) والی کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ جس کی میں تنخواہ لیتا ہوں۔ میں دکاندار سے سامان اٹھا کر زمیندار کو دیتا ہوں۔ دکاندار سے جو چیز 100 روپے کی لیتا ہوں آگے 120 روپے کی بیچ دیتا ہوں۔ یعنی اپنا منافع رکھ کر بیچتا ہوں۔ کیوں کہ اگر مجھے زمیندار سے پیسے نہیں ملتے یا لیٹ ملتے ہیں یا کم  ملتے ہیں تو دکاندار مجھ سے رقم لے لیتا ہے یا دکاندار کو میں نے ہی ادا کرنا ہے۔ دکاندار اور گاہک کا آپس میں کنٹکٹ نہیں ہوتا۔ ایک طرح سے میں ہی دونوں طرف کا ضامن بن جاتا ہوں۔ کیا اس حساب سے منافع رکھنا میرے لیے جائز ہے؟ مزید واضح کرتا چلوں کہ اگر میں اپنے گاہک کو براہِ راست دکاندار کے پاس بھیجتا ہوں تو وہی پراڈکٹ اسے 120 میں ہی ملتا ہے۔ دکاندار سے میں ڈسکاؤنٹ لے کر کچھ منافع رکھتا ہوں؟

جوابِ تنقیح:سائل کو کمپنی کی طرف سے یہی کام دیا گیا ہے۔کمپنی کے دئیے گئے وقت میں کمپنی کی چیز بیچ کر اس میں سے سائل نفع کماتا ہے،سائل کو متعلقہ آفیسر نے اجازت دے رکھی ہے،لیکن کمپنی کے بالا آفسران کو معلوم نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص  کسی کمپنی میں تنخواہ کے عوض ملازمت اختیار کرتا ہے  تو اسی کمپنی کے لیے کوئی کام کرنے کے عوض کمیشن لینا رشوت کے زمرہ میں آتا  ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل جس  کمپنی میں ملازم ہے اور کمپنی کی طرف سے مذکورہ کام پر وہ مامور ہے اور وہ کام اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے اور اس کام کی تنخواہ بھی سائل وصول کرتا ہے، تو سائل کے لیے اس کام پر (کہ کمپنی کی طرف سے 100 روپے کی خرید کر آگے 120 کی بیچ کر 20 روپے اپنے لیے)  نفع / کمیشن رکھناشرعاً جائز نہیں ہے، اور یہ رشوت کے زمرے میں آئے گا، کیوں کہ مذکورہ صورت میں سائل کی حیثیت وکیل  کی ہے اور وکیل امین کے حکم میں ہوتا ہے،جب کہ وکیل کے لیے اپنی اجرت / تنخواہ کے علاوہ مزید کسی قسم کا کمیشن وغیرہ لینا جائز نہیں ہے، باقی اب تک اگر سائل نے کوئی کمیشن / نفع لیا ہو تو وہ کمپنی کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

ہاں اگر سائل مذکورہ کمپنی کی ملازمت چھوڑ دے، پھر وہ اسپرے وغیرہ مثلاً سو روپے کے عوض خرید لے پھر ان سامان پر قبضہ کرنے کے بعد آگے ایک سوبیس روپے میں فروخت کر دے پھر بیس روپے  کا نفع لینا سائل کے لیے جائز ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشری)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة (عن النبي صلي الله عليه وسلم قال علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي... ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه (حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 137، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له."

(كتاب البيوع، ج: 4، ص: 560، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"ولا يجوز أخذ المال ‌ليفعل ‌الواجب."

(‌‌كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، ص: 362، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں