بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سید محمد براق نام رکھنے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ " سید محمد براق" نام رکھنے میں کوئی شرعی مسئلہ ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ مذکورہ نام تین الفاظ کا مجموعہ ہے :پہلا لفظ   سیدجس  کا معنی  شریف، سخی، اور سردار کے آتے ہیں لیکن   ہمارے عرف میں " سید"صرف وہ گھرانے  ہیں  جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب   "سید " ہے، اور یہ  ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛  اس لیے صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل  سے آنے والے گھرانوں کو   "سید " کہنا چاہیے۔لہذا صورتِ  مسئولہ  میں سید  کا لفظ جس کے  نام کے ساتھ لگایا جارہا ہے اگر وہ حسنین رضی اللہ  عنہما میں سے کسی کی اولاد میں سے ہے تب تو درست ہے  ورنہ نہیں۔

دوسرا لفظ محمد ہے جو  خاتم النبیین  آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ   مبارک ہے۔

تیسرا لفظ   "براق" ہے  جو عربی زبان کا لفظ ہے، اسے تین طرح پڑھا جاسکتا ہے:

(1) بُرَاق، یعنی "باء" پر پیش کے ساتھ، یہ جنت کی سواری ہے، جس پر سوار ہوکر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے  معراج کی رات سفر کیا تھا، اس تلفظ کے اعتبار سے بچے کا نام "محمد براق" رکھنا درست نہیں ہے۔ 

(2) بِرَاق، یعنی "باء" کے نیچے زیر کے ساتھ یہ "بُرقہ" کی جمع ہے، اور "بُرقہ" کے مختلف معانی ہیں: چت کبرا، معمولی چمک، تھوڑی سی چربی۔ معنی کے اعتبار سے یہ نام بھی مناسب نہیں ہے۔ 

(3) بَرَّاق، یعنی "باء" پر زبر اور "راء" مشدد کے ساتھ، اس کا معنی ہے: بہت زیادہ چمک دار، روشن، خوب صورت۔ اس تلفظ کے اعتبار سے "محمد بَرَّاق" نام رکھنا درست ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں    اگر    سید محمد کے ساتھ  لاحقہ لگانا ضروری  ہو تو  "براق"کی جگہ  انبیاء علیہم السلام ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورصلحائے امت کے ناموں  میں سے کوئی  نام  لگالے۔

لسان العرب میں ہے:

"والسيد يطلق على ‌الرب والمالك والشريف والفاضل والكريم والحليم ومحتمل أذى قومه والزوج والرئيس والمقدم، وأصله من ساد يسود فهو سيود، فقلبت الواو ياء لأجل الياء الساكنة قبلها ثم أدغمت."

(‌‌حرف الدال المهملة، ‌‌فصل السين المهملة، ج:3، ص:228، ط:دار صادر - بيروت)

مرقات المفاتیح میں ہے:

 "وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا ترغبوا): أي: لاتعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه): أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر): أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر".

(کتاب الطلاق، باب اللعان ج:5 ،ص:2170 ،طدار الفكر)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں ہے:

"عن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم - لي خمسة أسماء أنا محمد وأحمد وأنا الماحي الذي يمحو الله به الكفر وأنا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي وأنا العاقب.." أنا محمد " هذا هو الأول من الخمسة وقال السهيلي في الروض لا يعرف في العرب من تسمى محمدا قبل النبي صلى الله عليه وسلم..وأنا أسمي محمد، كثير الخصال الحميدة، وألهم الله أهله أن يسموه به لما علم من حميد صفاته، وفي المثل المشهور: الألقاب تنزل من السماء."

(باب ما جاء في أسماء النبي صلى الله عليه وسلم، ج:16، ص:96، 97، ط:دار إحياء التراث العربي)

لسان العرب میں ہے:

"والبرق: واحد بروق السحاب. والبرق الذي يلمع في الغيم، وجمعه بروق. وبرقت السماء تبرق برقا وأبرقت: جاءت ببرق. والبرقة: المقدار من البرق، وقرئ...والبراق: دابة يركبها الأنبياء، عليهم السلام، مشتقة من البرق، وقيل: البراق فرس جبريل، صلى الله على نبينا وعليه وسلم. الجوهري: البراق اسم دابة ركبها سيدنا رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ليلة المعراج، وذكر في الحديث قال:وهو الدابة التي ركبها ليلة الإسراء؛ سمي بذلك لنصوع لونه وشدة بريقه، وقيل: لسرعة حركته شبهه فيها بالبرق. وشيء براق: ذو بريق. والبرقانة: دفعة 2 البريق. ورجل برقان: براق البدن. وبرق بصره: لألأ به. الليث: برق فلان بعينيه تبريقا إذا لألأ بهما من شدة النظر."

(‌‌حرف القاف، ‌‌فصل الباء، ج:10، ص:15، ط:دار صادر - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں