بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیدہ خاتون زکات نہیں لے سکتیں


سوال

میرے پڑوس میں ایک بیوہ عورت اپنے 6نابالغ بچوں کے ساتھ رہ رہی ہے  اور خود ان کی کفالت کر رہی ہے،  کس مہ  پرسی کی حالت ہے،  کیا وہ زکات و امداد لے سکتی ہے؛ کیوں کہ ہم سنتے ہیں کہ سید اہل نہیں۔ مذکورہ خاتون کا کمانے کا ذریعہ نہیں، وہ خود سلائی وغیرہ کرکے اپنا خرچہ اٹھارہی ہیں!

جواب

مذکورہ عورت اگر سیدہ ہوں تو  سیدہ خاتون کو زکات  کی رقم نہیں دی جاسکتی۔ اَصحابِ خیر کو چاہیے کہ عطیات اور نفلی صدقات سے ان کی مدد کریں، روزِ  محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا سبب ہوگا، ان شاء اللہ۔

البتہ اگر کوئی تعاون کے لیے تیار نہیں، یا ارد گرد کے لوگوں کی مالی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ عطیات سے تعاون کرسکیں تو  یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ کسی غیر سید فقیر کو زکات کی رقم بایں طور  مالک بناکر اس کے قبضے میں دے دی جائے کہ وہ جس طرح چاہے اسے صرف کرنے میں خود مختار و آزاد ہو، اور اسے یہ مصرف اور تفصیل بھی بتادی جائے کہ فلاں سیدہ خاتون سخت محتاج ہیں، اور سادات کو زکات دینے کی اجازت نہیں ہے، اگر آپ اس رقم میں سے ان کا تعاون کرلیں تو مناسب ہوگا، اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے،  کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر اس رقم سے سیدہ کا تعاون کرتاہے تو  یہ  جائز ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و كما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة و الواجبة إليه كالعشور و الكفارات و النذور و صدقة الفطر؛ لعموم قوله تعالى: { إنما الصدقات للفقراء}، وقول النبي صلى الله عليه وسلم: { لاتحل الصدقة لغني}؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث؛ لكونه غسالة الناس؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني". (4/32)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144208200186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں