بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید مہتمم اور سید پیر کا مدرسے اور خانقاہ کے لیے زکات لینے کا حکم


سوال

سید مہتمم اپنا مدرسہ چلانے کے لیے  زکات لے سکتا ہے یا نہیں؟

اسی طرح سید پیر صاحب اپنی خانقاہ بنانے کے لیے زمین اور اس خانقاہ کو  چلانے کے لیے زکات لے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

1۔مدرسے میں اگر زکات کے مستحق طلبہ زیرِ تعلیم ہوں، اور ان پر زکات کی رقم خرچ کی جاتی ہو  (مثلاً انہیں امدادی وظائف جاری کیے جاتے ہوں یا ان کے علاج معالجہ اور  کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہو)  تومدرسےکا مہتمم (سید ہو یا غیر سید ہو)مدرسے کے طلبہ کے وکیل کی حیثیت سے ان کے لیے زکات کی رقم جمع کرسکتا ہے،  اس  رقم کو مدرسہ کے طلبہ کی ضروریات مثلاً: کھانے، پینے، علاج معالجہ اور دیگر ضروریات میں بحسب شرائط خرچ کرنا لازم ہو گا،  الغرض  مدرسہ کا مہتمم سادات خاندان سے ہوتےہوئے بھی مدرسہ کے طلبہ کے لیے زکات، صدقات وغیرہ وصول کر سکتا ہے۔

2۔زکات ادا  ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے، لہٰذا خانقاہ کی تعمیر وغیرہ کے لیے زکات کی رقم لینا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی، البتہ نفلی صدقات اور عطیات کے ذریعے خانقاہ کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ نیز پیر صاحب کو اگر کوئی شخص اپنا وکیل بنا کر زکات کی رقم دے کہ یہ رقم زکات کے مستحقین کو دے دی جائے، تو اس صورت میں خانقاہ میں آنے والے زکات کے مستحق متوسلین کی ضروریات میں خرچ کرنے کے لیے پیر صاحب زکات کی رقم لے سکتے ہیں۔ تاہم مستحقین کو زکات کی رقم مالک بناکر دینا ضروری ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

" وبه يعلم حكم من يجمع للفقراء ومحله ما إذا لم يوكلوه فإن كان وكيلا من جانب الفقراء أيضا فلا ضمان عليه فإذا ضمن في صورة الخلط لا تسقط الزكاة عن أربابها فإذا أدى صار مؤديا مال نفسه ھكذا في التجنيس". 

(کتاب الزکاۃ، ج:٢، ص:٢٢٧، ط:دار المعرفة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن."

(کتاب الزكاة، باب مصرف الزکاۃ والعشر، ج:٢، ص:٣٤٥، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:١، ص:١٨٨، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں