بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیدہ کا غیر سید سے نکاح کا حکم


سوال

کیا ایک سید لڑکی کسی غیر سید لڑکے سے اپنی پسند کی شادی کرسکتی ہے ؟

وضاحت: لڑکے کا خاندان کسی غیر خاندان سے ہے اور ذات کا ملک اعوان ہےبرادری سے ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں فریقین کے والدین راضی ہوں تو سید لڑکی غیر سید لڑکے سے نکاح کرسکتی ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اپنی پسند کے بجائے والدین جہاں راضی ہوں وہاں نکاح کرے، تاکہ خیر و برکت کا باعث ہو۔ البتہ چونکہ غیر سید لڑکا سید لڑکی کا کفو نہیں ہے، لہذا اگر سیدہ لڑکی نے والدین کی اجازت کےبغیر اپنی مرضی سے غیر سید لڑکے کے ساتھ نکاح کرلیا تو شرعا نکاح تو منعقد ہوجائے گا تاہم اگر لڑکی  اولیاء کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرے( غیرکفو سے کے) اولیاء کو اس پر اعتراض ہو تو اولیاء کو نکاح کے بعد اولاد ہونے سے پہلے پہلے بذریعہ مسلمان جج کی عدالت سے فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا."

(‌‌كتاب النكاح‌‌، باب الولي: 3/ 55، 56، ط: سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال:) وإذا تزوجت المرأة ‌رجلا ‌خيرا ‌منها فليس للولي أن يفرق بينهما؛ لأن الكفاءة غير مطلوبة من جانب النساء فإن الولي لا يتغير بأن يكون تحت الرجل من لا تكافئه؛ ولأن نسب الولد يكون إلى أبيه لا إلى أمه."

(كتاب النكاح، باب الأكفاء، تزوجت المرأة غير كفء ثم جاء الولي فقبض مهرها وجهزها: 5/ 29، ط: مطبعة السعادة)

تبيين الحقائق ميں هے:

"قال رحمه الله (‌نفذ ‌نكاح ‌حرة مكلفة بلا ولي)، وهذا عند أبي حنيفة وأبي يوسف في ظاهر الرواية وكان أبو يوسف أولا يقول إنه لا ينعقد إلا بولي إذا كان لها ولي، ثم رجع وقال: إن كان الزوج كفئا لها جاز وإلا فلا، ثم رجع وقال: جاز سواء كان الزوج كفئا أو لم يكن، وعند محمد ينعقد موقوفا على إجازة الولي سواء كان الزوج كفئا لها أو لم يكن، ويروى رجوعه إلى قولهما."

(كتاب النكاح باب الأولياء والأكفاء: 2/ 117، ط: المطبعة الكبرى الأميرية، القاهرة)

مبسوط سرخسي ميں هے:

"(قال:) وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما؛ لأنها ألحقت العار بالأولياء فإنهم يتعيرون بأن ينسب إليهم بالمصاهرة من لا يكافئهم فكان لهم أن يخاصموا؛ لدفع ذلك عن أنفسهم، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي."

(كتاب النكاح، باب الأكفاء: 5/ 25، ط: مطبعة السعادة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المرأة إذا ‌زوجت ‌نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى وهو قول أبي يوسف رحمه الله تعالى آخرا وقول محمد رحمه الله تعالى آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض."

(كتاب النكاح، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح: 1/ 292، ط: ماجديه)

امداد الفتاوی میں ہے:

سوال(۲۹۸): کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: سیدہ کا نکاح غیرسید سے ہوسکتا ہے یا نہیں؟ ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدہ عورت کا نکاح غیر سید سے ہوہی نہیں سکتا۔

الجواب : اگر فریقین راضی ہوں، تو سیدہ کا نکاح غیرسید سے ہونے میں کوئی حرج نہیں، مذکورہ صاحب کا یہ کہنا کہ سیدہ کا نکاح غیرسید سے ہوہی نہیں سکتا، غلط ہے۔

(کتاب الفرائض، مسائل شتی، بعنوان: جہالت بودن تکفر ناکح غیر سید با سیدہ: 4/ 476، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں