ہمارے ہاں ایک سید خاندان ہے جس کی مالی حالت انتہائی کمزور ہے ،وہ اپنی لڑکی کی شادی کرنا چاہتا ہے، لیکن ان کے پاس اس کا انتظام نہیں ہے ،تو ایسے سید خاندان کو زکوۃ دینا جائز ہے یا نہیں ؟
زکوۃ اداء کرنے کے وقت لینے والے کو بتانا ضروری ہے یا اپنی نیت کافی ہے ؟
1۔سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ۔ سید ضرورت مند ہو تو اردگرد کے اہلِ خیر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلال غیر زکات مال سے ان کی امداد کریں، اور قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے امیدوار ہوں۔
2۔زکوۃ ادا کرنے والےکی نیت کا اعتبار ہے ،زکوۃ کا نام لینا ضروری نہیں ہے،ہدیہ ،تحفہ وغیرہ کے نام سے بھی زکوۃ دے سکتے ہیں ۔
الھدایہ فی شرح المبتدی میں ہے:
" ولا تدفع إلى بني هاشم " لقوله عليه الصلاة والسلام " يا بني هاشم إن الله تعالى حرم عليكم غسالة الناس وأوساخهم وعوضكم منها بخمس الخمس " بخلاف التطوع لأن المال ههنا كالماء يتدنس بإسقاط الفرض أما التطوع فبمنزلة التبرد بالماء۔قال: " وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب ومواليهم " أما هؤلاء فلأنهم ينسبون إلى هاشم بن عبد مناف ونسبة القبيلة إليه وأما مواليهم فلما روي أن مولى لرسول الله صلى الله عليه وسلم سأله أتحل لي الصدقة فقال: " لا أنت مولانا "
(ج:1،ص:112،ط:داراحیاء تراث العربی ۔بیروت۔)
البحر الرئق میں ہے :
"قوله ( وبنى هاشم ومواليهم ) أي لا يجوز الدفع لهم لحديث البخاري نحن أهل بيت لا ثحل ( ( ( تحل ) ) ) لنا الصدقة ( 1 ) ولحديث أبي داود مولى القوم من أنفسهم وإنا لا تحل لنا الصدقة."
(ج:2،ص:265، ط:دارالمعرفۃ ۔بیروت ۔)
الفتاوی الھندیہ میں ہے :
"ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية."
(ج:1،ص:171،ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101686
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن