بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید احمد شہید کو کس نے شہید کیا؟


سوال

1۔میرا سوال یہ ہےکہ بالاکوٹ میں سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید رحمہااللہ تعالیٰ کو ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں نے دھوکہ بازی سے شہید کروایاتھا ،کیا یہ بات درست ہے؟

2۔اسی طرح آج کل ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کو منافق دھوکہ باز کہا جاتا ہے ،کیا اس طرح کہنا درست ہے ؟

جواب

ہزارہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا ایک ڈویژن ہے، صوبہ خیبر پختونخواہ کے اضلاع ہری پور، ایبٹ آباد مانسہرہ،تورغر، بٹگرام، لوئرکوهستان اوراپرکوہستان ہزارہ میں آتے ہیں، ہزارہ ڈویژن کے بڑے شہر ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور ہیں، سید احمد شہید ؒ اور ان کے مریدِ خاص اور بااعتماد ساتھی مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ دونوں حضرات نےسکھوں کے خلاف  جہاد شروع کیا تھا ، بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں شہید ہوئے، اور  بالاکوٹ میں   مدفون ہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں  سید احمد شہید ؒ و مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒدونوں حضرات کے بارے  میں یہ جو عام تاثر ملتا ہے، کہ سید احمد شہید ؒ و مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کو ہزارے والوں نے شہید کیا ،یہ تاثر غلط ہے ،کتب تاریخ وسیر میں ہماری نظر سے ایسی کوئی  صریح عبارت یابات نہیں گزری ، جس میں موجودہ ہزارہ کے علاقوں میں سے  کسی خاص علاقے کے لوگوں کے بارے میں یہ موجود ہو کہ انہوں نے سید احمد شہید ؒومولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کو قتل کیا ،البتہ کتب تاریخ و سیر میں یہ ضرور ملتا ہے کہ دونوں حضرات نے جس جہاد کا آغاز شیدو کی جنگ سے کیا ،اور پھر اس کے بعد چلتے چلتے سرحد کو اپنا مرکز بنا کر سکھوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا تھا،اس  کی تکمیل کے لیے بالاکوٹ کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بناکر اور بالآخر بالا کوٹ میں مٹی کوٹ کے مقام پر ذیقعدہ 1246ء میں دونوں حضرات نے  سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما یا ، اس پورے علاقے جس میں صرف ہزارہ ہی نہیں بلکہ سرحد  کے دوسرے علاقوں کے خوانین اور وڈیروں  نے جس جوش وخروش سے سید بادشاہ اور دوسرے مجاہدین کو اپنے ہاں آنےاور جہاد کو جاری رکھنے کی دعوت دی تھی ،  اور اپنی قولی و فعلی تائید ونصرت کی یقین دہانی کروائی تھی ،ان وعدوں اور ارادوں کی چند خوانین اور خاندانوں کے علاوہ اکثر خوانین اور سرداروں نے پاس داری اور وفاداری نہیں کی ،جس کو مذکورہ جہاد کی  شکست کے ظاہری اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا جاسکتا ہے ۔

الحاصل سربر آوردہ لوگوں کا ساتھ نہ دینا ،ان حضرات کی شہادت کا سبب بن گیا ،لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں برادری کے لوگوں نے بحیثیتِ برادری سید احمد شہید ؒ اور مولاناشاہ اسماعیل شہید ؒ کو شہید کیا۔

2۔ نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہیں یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان  یاقوم وبرادری کو  متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے۔

مفکرِ اسلام مولاناابو الحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں :

 اس کشمکش کا سب (یعنی سرداروں   خوانین اور  کا سید احمد شہیدؒ اور ان کے رفقاء کے خلاف اقدام کرنے اور ان  سے لڑنے کے کئی اسباب ومحرکات ہیں،ان میں ) سے بڑاسبب و محرک ان سرداروں ،خوانین،اور ملاؤں کی ذاتی اغراض ومصالح ہیں ،سید بادشاہ کے آنے سے پہلے یہ لوگ اپنے اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے منافع اور فوائد میں بالکل آزاد تھے ،وہ اس علاقے میں من مانی کاروائی کرتے تھے ،..............اور اس مخالفت کا دوسرا بڑا سبب صوبہ سرحد اور افغانستان  میں شریعت اسلامی کے متوازی ایک دوسرا آئین و قانون صدیوں سے جاری تھا،جس پر اہل سرحد آسمانی شریعت کی طرح عامل و راسخ تھے ،اور کسی حال میں اس کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ،...........اس آئین میں ان کے اغراض و مقاصد بھی محفوظ تھے اور باپ دادا کا رسم ورواج بھی محفوظ تھا،(ان اسباب وحرکات کی بناپر یہ خوانین و سردار شاہ صاحب کا ساتھ دینے اور عملی جہاد میں شرکت کرنے سے کتراتے تھے )۔

(تاریخ دعوت وعزیمت ،ج:6 ،ص:318/319،ط:نشریات اسلام )

خوانین کے متعلق عام تاثر :

"اس علاقے کے جن خوانین سے میں مل چکا ہوں ،ان کے متعلق براہ راست اور  ناصر خاں ،حسن خاں ،اور سید علی شاہ جن سے ابھی تک میری ملاقات نہیں ہوئی ،ان کے متعلق بطریقِ قیاس اندازہ ہوا کہ ان سے لشکرِاسلام کے بارے شوکت وغلبہ کا ذریعہ بننے اور کفار سے مقابلہ کرنے کے لیے کسی سلسلہ جنبانی کی امید نہیں ،البتہ ہمیں شوکت حاصل ہو جائے تو یہ ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں ،لیکن ان سے کسی قسم کی مضرت کا بھی اندیشہ بہت بعید ہے ۔"

(پانچواں باب ،ج:6 ،ص:46 ،ط:نشریات اسلام )

صحیح بخاری میں ہے :

 عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج:1، ص:222، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال :منافق کی شرعا ً تعریف کیا ہے /اگر آج کل منافق موجود ہیں تو ان کے لیے کن نصوص سے استدلال کیا جاسکتا ہے؟

ایسے منافقین آج بھی موجود ہیں ،لیکن  انقطاع وحی کے بعد منافق ہونے کا حکم لگانا دشوار ہے ۔2۔جس کے باطن میں کفر ہو اور ظاہر میں اسلام وہ منافق ہے ،لیکن س کی تعیین بس میں نہیں کہ ایسا کون ہے ۔فقط"

(کتاب الاِیمان ،باب الکفریات ،ج :2 ،ص:316 ،ط :ادارۃ الفاروق)

باقی اس موضوع پر تفصیل کے  لیے یہ کتابیں مفید رہیں گی :

1۔تحریکِ سید احمد شہید ؒاز مولانا غلام رسول مہر ؒصاحب ۔

2۔تاریخ دعوت وعزیمت ،ج:5/6 ،بنام سیرت ِ سید احمد شہید،از مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ ۔

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں