کالے رنگ کا کپڑا پہننا کیسا ہے ؟
سیاہ لباس پہننے کی مختلف صورتیں ہیں، ہر ایک کا حکم ذیل میں ذکر کردیا جاتا ہے:
1۔۔۔اظہار افسوس اور ماتمی علامت کے طور پر پہنا جائے، تو جائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ یہ اظہارِ غم کاایک غیرشرعی طریقہ ہے اور فقہائے کرامرحمہم اللہ نے صراحۃً اس سے منع فرمایا ہے۔
2۔۔۔روافض کے ساتھ مشابہت کی نیت سے پہنا جائے،تو بھی ناجائز ہے ؛ کیوں کہ حدیث میں کفار و فساق کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
3۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے پہنا جائے،تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر ایک آدھ دفعہ اس نیت سے پہنا جائے تو باعثِ اجر و ثواب ہے؛ کیوں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے بھی کبھی کبھار سیاہ لباس استعمال فرمایا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب و مرغوب لباس یہ نہیں تھا بلکہ سفید لباس ہی تھا ، لہذا سیاہ لباس کی بجائے سفید لباس کو استعمال کےلئے ترجیح دینا چاہئے، اگرچہ اس کی بھی گنجائش ہے۔
4۔۔۔بغیر کسی مشابہت اور ماتمی علامت کے پہنا جائے تو بلا کراہت جائز ہے، لیکن محرم کے مہینے میں اس سے اجتناب کرنا چاہئے؛ کیوں کہ اس میں روافض کے ساتھ ظاہراً مشابہت ہے، اگرچہ مشابہت کی نیت نہ ہو۔
الدر المختار مع ردالمحتار میں ہے:
"وفي التتارخانية: ولا تعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفا على موت زوجها فوق الثلاثة...(قوله: وفي التتارخانية إلخ) عبارتها: سئل أبو الفضل عن المرأة يموت زوجها، أو أبوها أو غيرهما من الأقارب فتصبغ ثوبها أسود فتلبسه شهرين أو ثلاثة، أو أربعة تأسفا على الميت أتعذر في ذلك؟ فقال: لا. وسئل عنها علي بن أحمد فقال: لا تعذر، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فإنها تعذر إلى ثلاثة أيام. اهـ. (قوله: وظاهره منعها من السواد إلخ) أي فيقيد به إطلاق ما مر من أنه لا بأس بأسود."
(کتاب الطلاق، باب العدۃ، فصل: فی الحداد، ج:3،ص:433،ط: ایچ ایم سعید)
فتاوی عالمگیریۃ میں ہے:
"ولا يجوز صبغ الثياب أسود أو أكهب تأسفا على الميت قال صدر الحسام لا يجوز تسويد الثياب في منزل الميت، كذا في القنية."
(کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک و ما لایکرہ،ج:5، ص:333،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر)
سنن ابی داؤد میں ہے :
"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تشبه بقوم فهو منهم."
( باب فی لبس الشہرۃ ،ج:4،ص:44،رقم الحدیث: 4031،ط: المکتبۃ العصریۃ بیروت )
شمائل ترمذی میں ہے:
"عن عائشة قالت:«خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه مرط من شعر أسود."
(الشمائل المحمدیۃ فی السیرۃ النبویۃ للترمذی، باب ماجاء فی لباسہ ﷺ،ص:60، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
شمائل ترمذی میں ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عليكم بالبياض من الثّياب ليلبسها أحياؤكم وكفّنوا فيها موتاكم، فإنّها من خير ثيابكم."
(الشمائل المحمدیۃ فی السیرۃ النبویۃ للترمذی، باب ماجاء فی لباسہ ﷺ،ص:59، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
فتاوی عالمگیریۃ میں ہے:
"ندب لبس السواد."
(کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک و ما لایکرہ،ج:5، ص:330،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر)
فتاوی عالمگیریۃ میں ہے:
"وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى لا بأس بالصبغ الأحمر والأسود، كذا في الملتقط."
(کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس ما یکرہ من ذلک و ما لایکرہ،ج:5، ص:332،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر)
تنویر الابصار مع الدر والرد میں ہے:
"ولا بأس بسائر الألوان."
(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل: فی اللبس،ج:6 ،ص: 358،ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101227
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن