بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودیہ عرب میں عصر مثل اول میں پڑھنا


سوال

حج یا عمرہ پر ہم سعودی عرب جاتے ہیں. وہاں پر عصر کی نماز باجماعت ایک مثل کے بعد پڑھائی جاتی ہے. ہم ادہر پاکستان میں عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھتے ہیں. کیا عمرہ یا حج کے موقع پر سعودی عرب حرم پاک میں ہم عصر کی نماز باجماعت امام کعبہ کی امامت میں ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  ظہر کے آخری وقت اور عصر کے ابتدائی وقت میں مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوجائے اور اس کے بعد عصر کاوقت داخل ہوتا ہے، لہٰذا مثلِ ثانی میں عصر کی نماز پڑھنا وقت سے پہلے نماز پڑھنا ہے، اس لیے یہ عام حالات میں درست نہیں ہے، البتہ حرمین شریفین میں جماعت کی فضیلت کے لیے وہاں  کے امام صاحب کی اقتدا  میں عصر  کی  نماز  پڑھ  سکتے  ہیں؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں حرمین شریفین میں وہاں کے امام کی اقتدا  میں عصر کی نماز کے ادا کر  سکتے  ہیں،  نماز ادا ہو جائے گی ۔

 فتاوی شامی  میں ہے:

" هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى: أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض، فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض".

(‌‌كتاب الصلاة،۱/ ۳۵۹ ط:سعید)

فیہ ایضا:

"(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى.(قوله: إلى بلوغ الظل مثليه) هذا ظاهر الرواية عن الإمام نهاية، وهو الصحيح بدائع ومحيط وينابيع، وهو المختار غياثية واختاره الإمام المحبوبي وعول عليه النسفي وصدر الشريعة تصحيح قاسم واختاره أصحاب المتون، وارتضاه الشارحون، فقول الطحاوي وبقولهما نأخذ لا يدل على أنه المذهب، وما في الفيض من أنه يفتى بقولهما في العصر والعشاء مسلم في العشاء فقط على ما فيه، وتمامه في البحر...(قوله: وهو نص في الباب) فيه أن الأدلة تكافأت ولم يظهر ضعف دليل الإمام، بل أدلته قوية أيضا كما يعلم من مراجعة المطولات وشرح المنية. وقد قال في البحر: لا يعدل عن قول الإمام إلى قولهما أو قول أحدهما إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل."

(كتاب الصلاة، ٣٥٩/١، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں